روزنامہ 92کی خبر کے مطابق صوبائی دارالحکومت کے سیف سٹی اتھارٹی میں اشتہاریوں اور مجرموں کی شکل شناخت کر کے کارروائی کرنیوالے فیشل ریکگنائزیشن سسٹم نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ سابق خادم اعلیٰ شہباز شریف نے لاہور شہر میں جرائم کے سدباب کے لیے 2009ء میں سیف سٹی منصوبے کا آغاز کیا مگر منصوبے میں بدعنوانی کا معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچنے کی وجہ سے کام روکنا پڑا۔ مسلم لیگ ن کی دوسری مدت میں 2014ء میں اس منصوبے پر ایک بار پھر کام شروع ہوا اور صوبائی اسمبلی میں جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق 17ارب سے زائد خطیر رقم سے اس منصوبے کو مکمل کیا گیا مگر بدقسمتی سے کام کے معیار کا یہ عالم ہے کہ چند برسوں میں ہی شہر میں لگائے گئے 10319کیمروں میں سے 4928 خراب ہو گئے۔ یہ غیر معیاری کیمروں کے کام نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہے کہ صوبائی اسمبلی میں جمع کرائی گئی ایک تحریک التوا کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور سمیت پنجاب میں سنگین جرائم کی شرح میں محض ایک سال میں 25فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اب شہر میں فیشل ریکگنائزیشن کے لیے لگائے گئے ایک ہزار کیمروں کے سسٹم نے بھی کام چھوڑ رہا ہے۔ بہتر ہو گا پنجاب حکومت شہر میں نصب کیمروں کو فعال کرنے کے ساتھ ناقص اور غیر معیاری کام کرنے والے افراد کا تعین کر کے ذمہ داران کا بھی محاسبہ کرے تا کہ سرکاری خزانہ کو لوٹنے کا سلسلہ تھم سکے۔