نائنٹی ٹو نیوز کی جانب سے ڈالر کے بائیکاٹ کی مہم پر عوامی رد عمل حوصلہ افزاء انداز میں سامنے آیا ہے۔ نائنٹی ٹو نیوز نے اپنے پڑھنے والوں سے اپیل کی تھی کہ قوم غیر ملکی برانڈز کے پیچھے نہ بھاگے اور ڈالر کا بائیکاٹ کرے۔ ڈالر کی بائیکاٹ مہم پر حکومتی وزرائ، اہم شخصیات اور صارفین نے معاشی اور مالیاتی بحران میں بطور قوم کردار ادا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ بلا شبہ ہر سال اہل پاکستان اربوں ڈالر کی ایسی مصنوعات استعمال کرتے ہیں جو بہت کم قیمت میں مقامی سطح پر تیار ہوتی اور فروخت ہوتی ہیں، مگر ایک خاص طبقہ انہیں درآمد کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ جنگ اور کرکٹ میچ کے دوران ہم ایک قوم دکھائی دیتے ہیں مگر ہم اپنے سماج کو بچانے کے لیے اور سماجی و معاشی حوالوں کو ریاست کے استحکام کے لیے مدنظر رکھنے کے لیے کبھی ترجیح نہیں دے پاتے۔ بطور قوم ہم پر 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد ایک مشکل وقت شروع ہوا تھا۔ امریکہ نے پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس وقت حکومت نے فارن کرنسی اکائونٹس منجمد کرنے کا اعلان کیا اور کچھ ہیجان مچا لیکن نائن الیون کے واقعات میں عالمی برادری کو ایک بار پھر پاکستان کی مدد کی ضرورت پڑی تو فوجی اور سول مقاصد کے لیے امداد آنے لگی۔ تاریخ نے گزشتہ چالیس برس کے دوران ہمیں دو مواقع دیئے جب ہم پاکستان کو خود کفیل اور مستحکم بنا سکتے تھے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں افغان جہاد کی شکل میں کچھ مواقع ملے۔ 2001ء میں نائن الیون واقعات کے بعد امریکہ اور نیٹو نے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی تو مجبوراً سہی پاکستان اس مہم میں امریکہ کا اتحادی بنا اور ایک بار پھر امداد اور قرضے حاصل کیے۔ سابق حکومتیں اگر ان برسوں میں معیشت کو بھیک اور قرضوں پر چلانے کی بجائے پیداواری بنیادوں پر استوار کر لیں تو آج درآمدات کا حجم برآمدات سے دو گناسے بھی زائد نہ ہوتا اور درآمدی بل ادا کرنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کو دھڑا دھڑ استعمال کرنے کی نوبت نہ آتی۔ ہم جس صورت حال کا شکار ہیں اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں جس طرح مسلسل کمی ہو رہی ہے لگ بھگ ایسی ہی کیفیت اگست 2018ء میں برادر ملک ترکی میں دیکھی جا رہی تھی۔ 2018ء کے دوران ترک کرنسی لیرا کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں قدر 40فیصد کم ہو گئی۔ یہ وہ دور ہے جب ترکی میں ایک بار پھر رجب طیب اردوان حکومت بنا چکے تھے۔ اس بحران کو ترک حکومت اور عوام نے امریکی سازش قرار دیا۔ امریکہ چاہتا تھا کہ شام کے حوالے سے ترکی اس کی حکمت عملی کی حمایت کرے۔ ترکی نے تب کھل کر کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ترک کرنسی پر حملے میں ملوث ہیں۔ ترک عوام نے صدر اردوان کی اپیل پر ڈالر کا بائیکاٹ کیا۔ ایسی چیزیں خریدنا بند کر دیں جن کی ادائیگی ڈالر میں کرنا پڑتی تھی۔ ترکی میں ڈالر کی شدید قلت پیدا ہوئی۔ ترک شہریوں نے اپنے گھر، کاروبار اور بینکوں میں محفوظ ڈالر باہر نکال دیئے۔ کئی ایک پرجوش افراد نے تو ڈالر کے نوٹوں کو آگ لگا دی۔ ترک شہریوں نے ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر بحال کرنے کا معاملہ صرف حکومت کی ذمہ داری قرار دے کر لاتعلقی اختیار نہ کی بلکہ اسے اپنی اجتماعی ذمہ داری تصور کیا۔ پوری ترک قوم اپنی حکومت کے شانہ بشانہ آ کھڑی ہوئی۔ صدر اردوان کے سیاسی مخالفین نے بھی اسے قومی آزمائش قرار دیتے ہوئے ڈالر بائیکاٹ مہم کو کامیاب بنایا۔ ترک وزیر خزانہ نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ امریکہ عالمی مالیاتی مارکیٹ کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے اور وہ ترکی کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لیے سازشیں کر رہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جب ترکی سے درآمد کی جانے والی سٹیل اور ایلومینیم کی مصنوعات پر ٹیکس دوگنا کرنے کا حکم دیا تو اس کا اثر ترک تجارت پر منفی انداز میں ظاہر ہوا۔ اس کے بعد ترک حکومت نے اپنے اداروں کو ایک لائحہ عمل فراہم کیا۔ چھوٹے اور درمیانے کاروبار عموماً کرنسی کی قدر میں کمی بیشی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ترک کمپنیوں کی طرح پاکستان میں بھی ایسے کاروباری ادارے اور افراد ڈالر کی قدر میں اضافے سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ کرنسی کی قدر میں کمی کا ایک نقصان یہ تھا کہ درآمدی اشیاء کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔ قدر میں کمی افراط زر میں اضافہ کی وجہ بنتی ہے۔ جب یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے تو حکومت افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرسٹ ریٹ بڑھانے پر مجبور ہو جاتی ہے مگر اس کا نتیجہ شرح نمو میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کرنسی کی قدر کم ہونے کا ایک اثر قوم کی اجتماعی نفسیات پر مرتب ہوتا ہے۔ قدر میں کمی کا مطلب معاشی کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ قوم کے طور پر ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ سرمایہ کاروں کا ملکی معیشت پر اعتبار لڑکھڑا جاتا ہے۔ یہ کیفیت غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے۔ اب موجودہ حالات کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ پاکستان کی حکومت عجیب دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ ایک طرف ایسی طاقتور بدعنوان شخصیات ہیں جو بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلتی آئی ہیں اور دوسری طرف ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ بدعنوانوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو وہ سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔حکومت اگر بدعنوانوں کے خلاف کارروائی روکتی ہے تو اصلاحات کے لیے اس کی تدابیر غیر مؤثر رہنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ بطور قوم ہمیں اس امر کا احساس ہونا چاہئے کہ یہ صرف معاشی مسئلہ نہیں بلکہ ڈالر کی قدر میں اضافہ پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں قوم کا متحد ہو کر ڈالر کے بائیکاٹ کا فیصلہ جہاں معاشی بہتری کا سبب ہو گا وہاں ملک دشمنوں کو یہ پیغام بھی ملے گا کہ اہل پاکستان متحد اور منظم ہیں۔