لاہور کی سڑکوں پر کوڑے کے ڈھیر دراصل تحریک انصاف کی انتظامی ناکامی کے تعفن کی علامت ہے۔ گزشتہ بیس برسوں کی تو میں خود بھی گواہ ہوں کہ لاہور کی سڑکوں پر کچرے کے ایسے ڈھیر جابجا کبھی دکھائی نہیں دیئے۔لاہور میں صفائی کے لیے ترک کمپنیاں تو ابھی دس برس پہلے آئیں تھیں جب شہباز شریف دو ترکی کمپنوں کو لاہور لائے اور شہرکا کچرا اٹھانے کا کام ان کے سپرد کیا۔اس سے پہلے بھی یہاں صفائی کا نظام ایسا برا نہیں تھا۔ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اور کارپوریشن کے اہلکار بروقت کچرا اٹھاتے اور ٹھکانے لگاتے تھے۔شہر میں جو بھی انتظامی عہدیدار آئے انہوں نے اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کی۔ کچرا اٹھانے میں کوڑاکرکٹ ٹھکانے لگانے میں کبھی بھی ایسا تعطل نہیں آیا تھا جیسا کہ کپتان کی حکومت میں لاہوریوں نے دیکھا اور بھگتا ہے۔غضب خدا کا کہ اس حکومت میں ہر معاملہ سیاست کا شکار ہو چکا ہے۔ جہاں شہر کی صفائی جیسا بنیادی اور فوری توجہ کا متقاضی کام بھی سیاسی حریفوں یعنی شریفوں کے ساتھ سیاسی بغض وعناد کی نذر ہو جائے وہاں دیگر معاملات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کوڑا اٹھانے والی دو ترک کمپنیاں البیراک اور اوز پاک کا معاہدہ فروری 2020 میں ختم ہو نا تھا۔2018 میں تحریک انصاف نے تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اپنی حکومت قائم کی۔ہونا یہ چاہئے تھا کہ 2019 میں ہی پنجاب حکومت کو ان دونوں ترک کمپنیوں کی جگہ نئے کنٹریکٹر لانے کے لیے اپنا ہوم ورک کرلیتی تاکہ فروری 2020میں معاہدہ ختم ہونے سے پہلے کنٹریکٹرز کی نئی ٹیم کچرا اٹھانے کا کام سنبھال لیتی۔ تحریک انصاف کی حکومت کا موقف ہے کہ کوڑا اٹھانے کی مد میں اربوں روپیہ لگایا جارہا ہے تو بھئی آپ نا لگائیں اربوں روپیہ اپنے من پسند کنٹریکٹر لے آئیں لیکن کوڑا تو اٹھائیں۔ چونکہ اس ضمن میں سوائے الزامات اور پروپیگنڈا کے اس حکومت نے کچھ نہیں کیا تھا سو معاہدہ ختم ہونے کے بعد پھر البیراک اور اوز پاک کے ساتھ معاہدہ بڑھانا پڑا۔ 31دسمبر 2020 ء کو یہ ایکسٹنڈڈ معاہدہ بھی ختم ہو جانا تھا لیکن سرکار کی طرف سے نو دن پہلے اس معاہدے کو کینسل کر دیا گیا۔اور پھر وہ کچھ ہوا جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ یہ واقعہ البیراک کمیونیکیشن مینجر نعیمہ کی زبانی سنیے "بیس اور اکیس دسمبر کی درمیانی رات میرے فون کی گھنٹی غیر متوقع طور پر بجی میں نے گومگو کی کیفیت میں فون اٹھایا تو دوسری طرف البیراک کے ترک ہائی آفیشل تھے نہایت پریشانی کے عالم میں کہنے لگے کہ پلیز میڈیا سے بات کریں ہماری ورکشاپس پر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے ورکروں نے حملہ کردیا ہے۔ " ذرا سوچیں کہ ترک کمپنی کی پاکستانی میڈیا منیجر نے کس شرمندگی اور خجالت کے ساتھ یہ کال سنی ہوگی۔ آدھی رات کے وقت ایل ڈبلیو ایم سی کے اہلکار ترک کمپنی کی ورکشاپوں پر دھاوا بولتے ہیں کچرا اٹھانے والی مشینوں ،ٹرکوں اور ڈمپروں پر قبضہ کرتے ہیں ۔دو ست ملک ترکی کے افراد کے ذاتی استعمال کی چیزیں بشمول ان کے لیپ ٹاپ ان سے چھین لیتے ہیں اور مزاحمت کرنے پر ان کے ساتھ دھینگا مشتی کرکے ان کو دھمکاتے ہیں اور یہ ساری کارروائی پنجاب پولیس کے مکمل تعاون کے ساتھ ا نجام دیتے ہیں۔البیراک اور اوز پاک کے ٹرکوں اور ڈمپروں پر لکھے ہوئے ترک کمپنی کے ناموں پر ڈھٹائی سے سیاہی پھیر پھیر کر انکے نام مٹاتے ہیں۔یہ تمام مشینری ترک کمپنی کی ملکیت ہے جو اس وقت ایل ڈبلیو ایم سی کے قبضے میں ہے۔ اس کالم کے سلسلے میں میرا البیراک کی میڈیا منیجر نعیمہ سعید سے کئی بار ٹیلی فونک رابطہ ہوا ۔ بات کرتے ہوئے کئی دفعہ وہ جذباتی ہوگئیں ، کہنے لگیں اس بد سلوکی اور کمپنی کی املاک پر قبضے کے اگلے روز دفتر میں ہم سب پاکستانی اپنے ترک آفیشلز سے انتہائی شرمندہ تھے اور پنجاب پولیس کی زیر نگرانی ہونے والی اس ساری کارروائی پر کسی ترک کولیگ سے سے آنکھ ملانے کے قابل نہیں تھے سب کی زبان پر شرمندگی میں لپٹا ہوا بس ایک ہی جملہ تھا کہ سارے پاکستانی اتنے برے نہیں ہیں۔ البیراک اور اوز پاک کمپنیوں نے اپنی کروڑوں روپے کی مشینری پر سرکار کے ناجائز قبضے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور لاہور ہائی کورٹ نے حکم دیاکہ فوری طور پر ترک کمپنیوں کی ملکیت تمام مشینری انہیں واپس کردی جائے۔ لیکن ترکی والے بھی کیا یاد کریں گے کہ کن نوسربازوں سے پالا پڑا ہے یہ عدالتی آرڈر لے کر جب ان کے اہلکار ایل ڈبلیو ایم سی کے دفتر پہنچے تو باہر ایک نوٹس ان کا منہ چڑا رہا تھا کہ دفتر کرونا کی وجہ سے بند ہے۔ عدالتی آرڈر کو وصول کرنے کے لیے وہاں کوئی سرکاری اہلکار موجود نہ تھا۔کرونا کے بہانے بند کیا دفتر دو دن کے بعد کھل گیا اور اتنے عرصے میں ایل ڈبلیو ایم سی نے عدالت سے سٹے آرڈر لے لیا۔ اس چوری اور سینہ زوری پر ترکی والے بچارے سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ دوسری طرف ایل ڈبلیو ایم سی کے ترجمان نے جھوٹ پر مبنی پریس ریلیز جاری کہ ہمیں کوئی عدالتی حکم نامہ نہیں ملا کہ ہم قبضہ کہ ہوئی مشینیں اور ٹرک ان کو واپس کریں۔ اگر کوئی ایسا عدالتی آرڈر ہے بھی تو لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اپیل میں جانے کاحق رکھتی ہے۔ جب اس کھلے جھوٹ اور سینہ زوری سے سرکار کاجی نہیں بھرا تو پنجاب حکومت کی خاتون ترجمان ایل ڈبلیو ایم سی کے نمائندوں کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کرتی ہیں جس میں حسب روایت ن لیگ اورشہباز شریف کو کوسا جاتا ہے کہ صرف کوڑا اٹھانے کے نام پر ترک کمپنیوں کو اربوں روپیہ لٹایا جاتا رہا ہے۔ خبر ہے کہ ترک کمپنی کے ہائر آفیشلز اس ہزیمت اور بدسلوکی پر نہ صرف پاکستان کی عدالتوں میں جائیں گے بلکہ وہ اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے جائیں گے۔