مصر اسرار و آثار کی سرزمین ہے۔ دریائے نیل کے ساتھ ساتھ دونوں طرف، شمال سے جنوب تک، اسوان سے اسیوط تک، کرناک سے گیزّہ تک، اتنے آثار قدیمہ ہیں کہ ماسوائے ہندوستان کے، ساری دنیا میں کہیں نہیں ہوں گے۔ تمام آثار اسرار کے سائے ہیں۔ دارالحکومت قاہرہ مصر کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کے اطراف بھی بے پناہ آثار ہیں۔ ساری دنیا سے سیاح آتے ہیں۔ مشہور ہے کہ کسی کو سیاحت کا موقع ملے اور چوائس صرف ایک ملک جانے کی ہو تو وہ مصر کا انتخاب کرے گا یا برصغیر کا (بشرطیکہ سیاحت کا مقصد تفریح نہ ہو)۔ قاہرہ کا نیا شہر تو یورپ جیسا لگتا ہے لیکن پرانا شہر اب بھی تاریخ میں زندہ ہے بلکہ یوں کہیے کہ تاریخ اس میں زندہ ہے۔ یہاں آثار قدیمہ اور نوادرات کی بہت سی دکانیں ہیں۔ سیاح منہ مانگی قیمت پر نوادر خریدتے ہیں اور اپنے وطن لے جاتے ہیں۔ نوادرات میں کیا نہیں ہے۔ لطیفہ ہے کہ فرعونوں کی ممیاں بھی مل جاتی ہیں۔ ایک لطیفہ ذرا ہٹ کے ہے اور وہ یہ کہ ایک سیاح کسی اندھیری گلی میں مخفی دکان پر گیا جس کے بارے میں اس نے سنا تھا کہ یہاں وہ کچھ مل جاتا ہے جو کہیں اور نہیں ملتا۔ سیاح کو یہاں واقعی ایک بہت ہی انوکھی، بہت ہی نادر اور قطعی نایاب چیز ملی۔ ذرا سوچئے، وہ کیا ہو سکتی تھی؟ جی، اسے ملکہ مصر قلوپطرہ کی کھوپڑی ملی۔ دکاندار نے دستاویزی ثبوت بھی دکھائے، جو یہ ثابت کرتے تھے کہ یہ قلوپطرہ ہی کی کھوپڑی ہے جو فلاں سن میں کسی نے قبر سے نکالی، پھر ہاتھوں ہاتھ منتقل ہوتی ہوئی بالآخر یہاں اس دکان پر آ پہنچی۔ سیاح کے ہاتھ پائوں خوشی سے پھول گئے۔ مالدار آدمی تھا، بھاری قیمت دے کر کھوپڑی خرید لی۔ اگلے روز اس نے سوچا، اس دکان کا ایک پھیرا اور لگا لوں، شاید کچھ اور نادرہ روزگار عجوبہ مل جائے۔ وہاں پہنچا تو دیکھا، دکاندار کسی گاہک کے ہاتھ قلوپطرہ کی کھوپڑی بیچ رہا ہے۔ سیاح حیران ہوا، پھر مشتعل، اس نے دکاندار کا گریبان پکڑ لیا اور کہا، قلوپطرہ کی کھوپڑی تو کل میں نے خریدی تھی، یہ دوسری کہاں سے آئی، دکاندار نے سیاح کو پہچان لیا، تھوڑا بوکھلایا پھر کہا…تمہیں جو کھوپڑی دی تھی، وہ اس کے بڑھاپے کی تھی، یہ کھوپڑی اس کی جوانی کے زمانے کی ہے۔ بھولا سیاح ایک بار تو لگا کہ قائل ہو گیا لیکن جلد ہی سنبھل گیا اور اس نے دوبارہ دکاندار کا گریبان پکڑ لیا۔ یوں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ یہ لطیفہ کل وزیر اعظم کا خطاب سن کر یاد آیا۔ اگرچہ معاملہ پوری طرح مشابہ تو نہیں ہے لیکن کچھ کچھ ہے، بہرحال، کیا کیا جائے، یاد آیا تو لکھ دیا۔ وزیر اعظم نے فرمایا کہ لوگ مہنگائی کا(ناروا) رونا روتے ہیں حالانکہ میرے دور کے اس پہلے سال میں مہنگائی کم ہوئی ہے، جسے یقین نہیں آتا وہ یہ اقتصادی اشاریے دیکھ لے۔ لوگ حیران ہیں کہ ایک ہی ملک میں، ایک ہی سال کے دو دو اشاریے کہاں سے آ گئے مذکورہ بالا لطیفہ اس الجھن کا حل پیش کرتا ہے۔ ایک ہی قلوپطرہ کی دو دو کھوپڑیاں ہو سکتی ہیں تو دو اشاریے کیوں نہیں۔ عمران خان کے سامنے جو اشاریہ ہے، وہ بھی اصلی ہو گا تبھی تو انہوں نے اس کا حوالہ دیا۔ جو اشاریہ عوام کے سامنے ہے، وہ جھوٹ ہے لیکن سچ کی طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بجلی کے بل چودہ ماہ سے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ دوائیں دو گنی نہیں، تین گنا مہنگی ہو گئیں۔ روز مرہ استعمال کی 44اشیاء سال گزشتہ کے مقابلے میں مہنگی ہو گئیں۔ اوسط درجے کے ملازم جس ٹرانسپورٹ کے ذریعے اپنے دفاتر یا کام کی جگہ پر جاتے ہیں، اس کے کرائے ہوش اڑا دینے کی حد تک بڑھ چکے ہیں۔بچوں کے سکول کا یونیفارم ہو یا کتابیں، سبھی قوت خرید کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ خبر گرم ہے کہ ان سردیوں میں گیس اور مہنگی ہو جائے گی۔ غریب دل جلانے کو جو سگریٹ پیتا تھا، وہ بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ امیروں کا ’’تفریحی شربت‘‘ البتہ سستا ہو گیا ہے۔ بالخصوص پنجاب میں جس کی حکومت نے میتھانول یا پتہ نہیں جو بھی کیمیکل اس مشروب کے لیے استعمال ہوتا ہے، ڈیوٹی فری کر دیا ہے۔ گھروں میں پریشانی، منڈی میں ویرانی اور اسی ویران و پریشانی کے حاصل جمع ہی کو تبدیلی کہتے ہیں۔ خان صاحب کا اشاریہ سچا، عوام کی گردن میں لپٹا اشاریہ جھوٹا اور خود عوام بھی جھوٹے۔ ٭٭٭٭٭ خطاب میں خان صاحب نے مزید فرمایا کہ مولانا کے دھرنے سے کشمیر کاز متاثر ہو گا۔ ان کا یہ اندیشہ بے جا ہے۔ اس لیے کہ کشمیر کاز اب ہفتہ واری ٹوئیٹ اور پندرھواری بیان تک سمٹ گیا ہے۔ دھرنا ٹوئیٹ کو روکتا ہے نہ بیان کو پھر کاز کیسے متاثر ہو گا۔ خان صاحب کم از کم کشمیر کاز کی حد تک پریشان نہ ہوں۔ ٭٭٭٭٭ کچھ وزیر برہم ہیں کہ لبرل عناصر مولانا کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایک وزیر کا بیان آیا ہے کہ مولانا کامیاب ہو گئے تو طالبان کی حکومت بن جائے گی۔ دلچسپ معاملہ ہے۔ پاکستان کے لبرل عناصر کی کایا کلپ ہو گئی اور طالبان راج کیسے سرگرم ہو گئے۔