آج سے 1440قمری سال قبل،ایسے ہی شب و روز۔۔۔۔۔۔ شوال المکرم کی چودہ تاریخ اور جمعتہ المبارک کادن۔۔۔ جب، مشرکین مکہ تین ہزار کی تعداد میں جنگ آزما سورمائوں پر مشتمل،لشکرِ جرار کے ساتھ مدینہ منورہ کی چھوٹی سی بستی پر حملہ آور ہو کر،احد کے دامن میں خیمہ زن ہو ئے، ہفتہ15شوال،رسول اللہؐ نے مجلسِ شوریٰ میں خطّے کی تازہ ترین صورتحال پر مشاورت کا اہتمام فر ما کر،آرأ طلب فرمائی۔ آپ ؐنے فرمایا :"اگر تم مناسب سمجھو تو شہر کے اندر مورچہ بند ہوجائو۔ عورتوں اور بچوں کو مختلف گڑھیوں میں بھیج دو۔ اگر کفارباہر ٹھہرے رہیں گے تو ان کا یہ ٹھہرنا ان کے لیے بہت تکلیف دہ ہوگا اور اگر انہوں نے شہر کے اندر داخل ہونے کی جرأت کی تو ہم گلی کوچوں میں ان سے لڑائی کریں گے اور ہم ان گلیوں کے پیچ و خم سے خوب واقف ہیں،ہم ان پر بلند مکانوں اور اونچے ٹیلوں سے پتھرائو کر کے بھی انہیں بچھاڑ سکیں گے"۔ حصولِ شہادت کے شوقِ فراواں سے آراستہ،بالخصوص نوجوان صحابہ کرامؓ کے پْرجوش جذبے اور ولولے۔۔۔۔ وہ عرضگزارہوئے،یارسول اللہؐ ہمیں لے کر دشمنانِ حق کے سامنے چلیئے،وہ یہ نہ خیال کریں کہ ہم بزدلی کے سبب، گھروں میں سہم کر بیٹھ گئے ہیں۔رسول ِ اکرم ؐ نے ان کے جوشِِ ایمان،شوق ِشہادت اور اس پر ان کے اصرار کا مشاہدہ فرماکر اکثریت کی اس رائے کو اختیار فرمایا۔سرِ اقدس پہ عمامہ مبارک،وحودِ اطہر پہ زرہ، کمر مبارک پہ کمر بند ، شمشیر گردن میں حمائل تھی،صحابہؓ دو رویہ قطار باندھے چشم براہ تھے،اسی اثنا میں،مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کے اصرار پر،ندامت کے آثار نمایاں ہوئے،حضورعلیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: کسی نبی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ ہتھیار پہننے کے بعد،انہیں اتاردے،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے اور اس کے دشمن کے درمیان فیصلہ نہ کردے۔آخر میں ارشاد فرمایا :اللہ کا نام لے آگے بڑھو نصرت الہٰی تمہارے ساتھ ہوگی ،جب تک تم صبر کا دامن پکڑے رہوگے۔ اس ایک واقعہ میں اْمّتِ مسلمہ کے قائدین کے لیے دو قیمتی رہنما اصول ہیں۔ پہلا یہ کہ اپنی رائے پر بضد نہ رہو۔ بلکہ اہلِ اسلام کے اکثریتی فیصلہ اور ان کے جذبات جاں فروشی کا احترام کر و اور ان کے جوش جہاد کی قدر کرو۔دوسرا یہ کہ جب ایک بار کوئی فیصلہ کر لو تو پھر اس پر ڈٹ جائو۔ بار بار فیصلہ کو بدلنا فیصلہ کرنے والے کی قوت فیصلہ کو مجروح کردے گا۔اس کے احباب کو اس پر وہ اعتماد نہیں رہے گا۔ جو مشکل حالات میں اس کی کا میابی کا ضامن ہوا کرتا ہے۔ جبلِ اْحد، مدینہ شریف کے شمال میں اس وقت تقریباً تین میل کے فاصلے پر ، شرقاً غرباً بخطِ مستقیم پھیلا ہواتھا۔ وادی کے جنوبی کنارے پر چھوٹاساٹیلا جسے’’جبل عینین‘‘کہا جاتا ہے۔ یعنی دو چشموں والا ٹیلا،غز وہ احد کے بعد یہ’’جبل الرماۃ‘‘ سے بھی موسوم ہوا، یعنی وہ ٹیلا جس پر عبد اللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کا مورچہ تھا ، جنہیں سفید وردی پہننے کا حکم ہوا ، تاکہ دورہی سے ان کی پہچان ہو جائے ، اور اس عظیم ترقائد اور سپہ سالاراعظم نے ایسا تاکید ی حکم،سنایا، جسکی نظیربہت کم ملتی ھے: اگر گھڑ سوار ہم پر حملہ کریں تو ان پر تیروں کی بوچھاڑ کرنا تاکہ ہمارے پیچھے سے وہ ہم پر حملہ نہ کر سکیں۔ ہم فتح یاب ہوں تب بھی تم اپنے مورچے پر ڈٹے رہنا تمہاری طر ف سے دشمن ہم پر حملہ نہ کرنے پائے۔ اگر تم دیکھو کہ ہم نے مشرکین کو شکست دے دی ہے اور ہم ان کے لشکر میں گھس کر انہیں بے دریغ تہ تیغ کر رہے ہیں تب بھی تم اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں اچک کر لے جار ہے ہیں اور دشمن ہمیں تہ تیغ کر رہے ہیں تب بھی ہماری مدد کے لیے مت آنا۔ ہمار ا دفاع ہر گزنہ کرنا اپنے مورچوں کو ہر گز نہ چھوڑنا۔ جب تک میں تمہاری طرف اپنا خصوصی پیغام نہ بھیجوں۔ دشمنوں پر تیروں کی موسلادھار بارش کرتے رہنا۔ کیونکہ جہاں تیر برس رہے ہوتے ہیں وہاں گھوڑے پیش قدمی نہیں کرتے۔کان کھول کر سن لو۔جب تک تم اپنی جگہ پر ڈٹے رہو گے ہم غالب رہیں گے۔ اے اللہ! تو گواہ رہنا کہ میں نے انہیں سمجھانے میں اپنا فرض ادا کردیا۔ حضور علیہ الصلوۃ و السلام،سکب نامی گھوڑے پر سوار ، گلے میں کمان آویزاں کیے اور دستِ اقدس میں نیزہ تھامے ہوئے ، آپ کی قیادت میں ، لشکر اسلام ، بوقتِ سحر، احد کی گھاٹی میں اْترا، حضرت بلالؓ نے اذان دی ،رسا لتمأب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدأ میں نماز ِ فجر ادا ہوئی،۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرِ مبارک پر خود سجایا اور دوسری زرہ بھی زیب تن فرمائی۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روح پرور اور ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت اور لیڈر شپ کے وہ ، اہم ، نمایا ں اور حسین تریں گوشے ، پوری آب و تاب اور چمک دھمک کے ساتھ جلوہ آرأ ہوتے نظر آئیں گے۔ جن کا ظہور صرف آزمائش کے طویل ترین لمحوں ہی میں نمایاں ہوسکتا ہے۔ عین اس لمحے ، جب دشمن کا لشکر، پورے طمطراق اور کرو فر کے ساتھ اسلام اور اہلِ اسلام کو ملیا میٹ کرنے کے لیے بالمقابل خیمہ زن ہے۔ داعی دین متین اپنے ماننے والوں کو،کیسا سبق ازبر کروارہے ہیں۔ دنیا کے مختلف کمانڈرز،سپہ سالاران اور فاتحین کے،میدان حرب و ضرب میں بڑے بڑے زوردار خطبات،تاریخ کے ایوانوں،دیوانوں اور میدانوں میں موجود ہیں،لیکن احد کے میدان میں اس پیغمبرِ اعظم و آخر نے جوعظیم خطبہ ارشاد فرمایا ، انسانیت ، قیامت تک اس سے ہدایت ، روشنی اور راہنمائی حاصل کرتی رہے گی۔ اسکے چیدہ چیدہ نکات:اے لوگو!میں تمہیں اس چیز کی وصیت کرتا ہوں جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی کتاب میں دیا ہے۔ کہ میں اس کی اطاعت کروں اور حرام کاموں سے باز رہوں ،آج اجروثواب کے جس مقام پرتم کھڑے ھو،جس نے اپنے اس مقام کویادرکھااور پھر اس نے اپنے نفس کو صبر،یقین،جہد مسلسل اور خوش دلی کا خوگر بنایا، کیونکہ دشمن سے جہا د کرنابہت مشکل کام ہے،کم لوگ ہیں جو اس صبر آزما مرحلہ میں ثابت قدم رہتے ہیں۔بجز ان لوگوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ سیدھے راستہ پر پختہ کردیتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اسی کا ساتھی ہوتا ہے جو اس کا فرنبردار ہوتا ہے۔ "باہمی اختلاف ، جھگڑا اور بزدلی" ، عجز اور کمزوری کی علامتیں ہیں، یہ ان چیزوں میں سے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز،ازسرنو میرے سینہ میں ڈالی ہے ،کہ جو شخص حرام کام کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اپنے درمیان اور اس کے درمیان جدائی کردیتا ہے،اور جو شخص اس حرام سے اللہ کی رضا کے لیے منہ موڑتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔جو شخص نماز جمعہ سے بے پروائی کرے گا ،اللہ تعالی اس ے بے پروائی کرے گا ۔کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرے گا ۔یہاں تک کہ اپنے رزق کا آخری لقمہ پورا پورا حاصل کر لے ،اور اس سے کم نہ ہو ۔