لفافہ خور صحافیوں کی چاندی ہو گئی۔ نری جہالت پر مبنی مضمون حکمرانوں کا فُضلہ خور اور ظالمانہ نظام کا محافظ صحافی اپنی نمک حلالی کر رہا ہے۔ افسوس تیری فہم پر! نری جہالت پر مبنی مضمون اس گناہ میں تم جیسے کئی لفافیے شریک ہیں دریاکے کنارے آباد۔شہر کی زرخیز مٹی میں سے کبھی کبھی تم جیسے ناسور پیدا ہو جاتے ہیں جو گوبر کو حلوہ پیش کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے پھر بعد میں اسی گوبر کو منہ پر مار کر بھاگنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ کمپنی بین الاقوامی عدالت میں کیس جیت چکی ہے۔ جو ثبوت وہاں پیش نہیں گئے انہیں اس صحافی کی پشت میں ٹھونک دیا جائے۔ ان لوگوں کو الٹا لٹکا کر مارنا چاہیے۔ انتہائی بھونڈی اور بغض سے بھری تحریر۔ لنڈے کے لبرل ان کتوں نے اس قوم کا بیڑہ غرق کر دیا تم جھوٹ لکھ رہے ہو۔ تمہیں شرم آنی چاہیے تم لوگوں کو کالم لکھنے سے پہلے اپنے منہ پر لعنت لکھنی چاہیے اور سویرے اٹھنے سے پہلے اپنے منہ پر تھپڑ مارنے چاہئیں۔ یہ شخص کالم اپنے مالی پشت پناہوں سے وفاداری نبھانے کے لئے لکھتا ہے۔ مسٹرفلاں، مسٹر فلاں، مسٹر فلاں، مسٹر فلاں، مسٹر فلاں، مسٹر فلاں اور مسٹر فلاں صحافت کے چہرے پر بدنما دھبے ہیں۔ ان جیسوں نے خوب منہ کالا کروایا سمجھ نہیں آتا کہ کنگلا صحافی کروڑ پتی کیسے ہو گیا؟ راتب کھاتے ہوئے دوسروں پر بھونکنے والے کبھی اپنے پٹے پر بھی نظر ڈالیں کہ پٹے پر کس کا نام لکھا ہے۔ صدیوں کی غلامی کیوں نہیںنکلتی تمہارے خون سے؟ تمہارے اندر کا کیڑا مرا ہے یا نہیں؟ آپ کو دیکھ کر اس بات پر یقین آنے لگا ہے کہ ’’ناممکن ہے کہ بندہ فلاں علاقے سے ہو اور منافق نہ ہو‘‘ تم جیسے بے ضمیر صحافیوں نے اس ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ او چل ماما۔ چمچے صحافی اس گناہ میں تم جیسے کئی لفافیے شریک ہیں آپ اینکرز ہیں نا اس ملک کے والی وارث! سب کچھ آپ ہی کی میزوں پر طے ہوتا ہے۔ یہ ہیں وہ چند کمنٹ جو ایک معروف و مقبول ویب سائٹ پر قارئین نے دیے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کمنٹ دینے والوں کو ’’قارئین‘‘ کا نام دیتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ابھی تو ان کمنٹس کی تہذیب کی گئی ہے کچھ اصل حالت میں قابل اشاعت ہی نہ تھے۔ یہ صرف وہ تازیانے ہیں جو چار صحافیوں پر برسائے گئے ہیں۔ دو تحریک انصاف کے حامی ہیں اور دو مسلم لیگ نون کے۔ باقی صحافیوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو رہا ہے۔ کمنٹ دینے والے شرفا کی شناختیں فیس بک کی وساطت سے موجود ہوتی ہیں۔ کوئی مہذب‘ قانون پر چلنے والا ملک ہوتا تو آگ اگلنے والے یہ نام نہاد قارئین عدالت میں کھڑے ہوتے۔ انہیں بتانا پڑتا کہ لفافیہ کس ثبوت کی بنا پر کہا ہے؟ کس کا مالی پشت پناہ کون ہے؟ گالیاں دینے پر ان دشنام طرازوں کو معافی مانگنے کے علاوہ مالی ہرجانہ دینا پڑتا۔ جج ان سے پوچھتا کہ جب بقول تمہارے مسلم لیگ نون نے‘ یا تحریک انصاف نے‘ یا اسٹیبلشمنٹ نے فلاں فلاں کو لفافے دیے تو کیا تم اس وقت وہاں موجود تھے؟ کیا عجب ان آتش خوروں کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑتی۔ یہ ہے ان عوام کی ذہنی سطح جو صحافیوں اور اینکروں کو مغلظات بکتے ہیں۔ حسن نثار سے لے کر ہارون الرشید تک۔سلیم صافی سے لے کر خورشید ندیم تک۔ رئوف کلاسرہ سے لے کر صابر شاکر تک۔ مجیب الرحمن شامی سے لے کر سہیل وڑائچ تک۔ ان لوگوں کے نزدیک سب گردن زدنی ہیں۔ سب کسی نہ کسی سے لفافہ لیتے ہیں۔ دیانت دار صرف وہ ہیں۔جو گھر میں بیٹھے‘ چائے پیتے ہوئے‘ گالیاں دے رہے ہیں مغلظات بک رہے ہیں اور اپنا نامہ اعمال گندہ کر رہے ہیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون! جو معروف صحافی ہمارے دوست‘ اس ویب سائٹ کو چلا رہے ہیں وہ خود مجسم شائستگی ہیں۔ شریف النفس ہیں اور نرم گفتار دوستوں کے دوست ہیں۔ صاحب علم و ادب ہیں۔ المیہ ان کے ساتھ یہ ہوا کہ افرادی قوت کی کمی ہے۔ ورنہ قاعدہ یہ ہے کہ چھپنے سے پہلے کمنٹ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس عمل کو ماڈریشن (Moderation)یعنی ایڈیٹنگ کہتے ہیں۔ ویب سائٹ چلانے والے جس کمنٹ کو نامناسب خیال کرتے ہیں اسے حذف کر دیتے ہیں جو اخبارات انٹرنیٹ پر چھپے ہیں۔ ان کا بھی یہی قاعدہ ہے کہ قارئین کے کمنٹ کا جائزہ لیتے ہیں‘ مناسب ہوں تو شائع کرتے ہیں ورنہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں۔ ایک ہفتہ قبل اس کالم نگار نے ویب سائٹ سے درخواست کی کہ اس کے کالم پوسٹ نہ کیا کریں۔ شاعر نے تو کہا تھا ؎ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا یا بقول مومنؔ ؎ لگتی ہیں گالیاں بھی ترے منہ سے کیا بھلی قربان تیرے!پھر مجھے کہہ دے اسی طرح مگر یہ کالم نگار ابھی تک دیہاتی کا دیہاتی ہے۔ بقول ظفر اقبال ؎ ظفر میں شہر میں آتو گیا ہوں مری خصلت بیابانی رہے گی گالی نہیں برداشت ہو سکتی۔ ویب سائٹ نے کرم کیا۔ کالم جو اخبار سے اٹھا کر لگاتے تھے۔ لگانا بند کر دیا۔ اس کالم نگار کی اپنی ویب سائٹ پر جو کمنٹ موصول ہوتے ہیں وہ ایڈٹ کئے جاتے ہیں۔ نامناسب الفاظ اور دشنام پر مشتمل کمنٹ فوراً ڈیلیٹ ہو جاتے ہیں اور بِن(ردی کی ٹوکری) میںمنتقل ہو جاتے ہیں۔ یہی سہولت ای میل پر موجود ہے کل ہی ایک صاحب کو جو خرافات لکھ کر بھیجتے تھے۔ بلاک کر دیا ہے۔ بلاک کی ہوئی ایل میل براہ راست جَنک (کوڑے دان) میں چلی جاتی ہے۔ فیس بک پر بھی آپ جسے چاہیں بلاک کر سکتے ہیں۔ نامناسب کمنٹ بھی ڈیلیٹ کیا جا سکتا ہے۔ رہا وٹس ایپ یا ایس ایم ایس تو وہاں بھی بلاک کرنے کی سہولت موجود ہے کچھ لوگوں نے یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے کہ آپ سے پوچھے بغیر آپ کو وٹس ایپ گروپ کا رکن بنا لیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نہ ختم ہونے والی ایک خوفناک بمباری کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ایگزٹ کرنے کا یا گروپ چھوڑنے کا آپشن موجود ہے۔ اگر گروپ بنانے والے میں اتنا اخلاق نہیں کہ آپ سے اجازت لے کر آپ کو گروپ میں شامل کرتا تو آپ کو بھی حق حاصل ہے کہ گروپ سے اپنے آپ کو نکال لیجیے۔ آنکھیں بھی ٹھنڈی رکھیں اور کان بھی!! مانا کہ سیاست دان بھی غلط ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ بھی مجرم ہے۔ صحافی بھی بٍُرے ہیں۔ کالم نگار بھی قابل نفرت ہیں۔ اینکر بھی مفاد پرست ہیں۔ مگر یہ عوام؟؟ یہ کیا ہیں؟؟ ہر پڑھنے والا‘ لکھنے والے کو گالی دے رہا ہے۔ ہر سننے والا بولنے والے کے خلاف آگ اگل رہا ہے! اور ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب پڑھے لکھے لوگ ہیں! کیا کوئی بتائے گا کہ یہ تربیت کی کمی ہے؟ یا خاندانی پس منظروں کا قصور؟ کیا ہم بدتہذیبی کی آخری منزل پر پہنچ چکے ہیں؟ گالی دینا منافق کی نشانی ہے! کیا ہم منافقوں کی قوم ہیں؟