احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اپنا بیان حلفی اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو جمع کرا دیا جس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد مدینہ منورہ میں کہا کہ یہ لکھ دو کہ نوازشریف کا فیصلہ دبائو کے تحت دیا۔ استعفیٰ دینے کے بدلے پچاس کروڑ روپے اور اہل خانہ سمیت برطانیہ، کینیڈا یا کسی بھی دوسرے ملک میں رہائش اور ملازمت کی پیشکش کی۔ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اکثریتی فیصلے کی روشنی میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے بارے مناسب شواہد کے حصول کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا۔ جے آئی ٹی کی تحقیق کے بعد 19 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی جس کی روشنی میں 28 جولائی 2017ء کو پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے میاں نوازشریف کو پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا گیا اور نیب کو چھ ہفتوں میں میاں نوازشریف کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا۔ نیب نے میاں نوازشریف فیملی کے خلاف چار ریفرنس احتساب عدالت میں پیش کئے۔ جن میں پہلا ریفرنس ایون فیلڈ پراپرٹیز، دوسرا العزیزیہ سٹیل ملز، تیسرا فلیگ شپ اور چوتھا اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا تھا۔ ایون فیلڈ کے ریفرنس میں جج محمد بشیر نے چھ جولائی 2018 ء کو میاں نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزا سنائی۔ باقی ریفرنس بھی جج بشیر کی عدالت میں ہی زیر سماعت تھے لیکن میاں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کر کے کیس کسی اور عدالت منتقل کرنے کی درخواست کی تھی جسے عدالت نے مسترد کر کے جج محمد بشیر کو ہی کیسز کی سماعت جاری رکھنے کا حکم دیا لیکن اچانک جج محمد بشیر نے 16 جولائی کو کیسز کی سماعت سے معذرت کرلی۔ یہاں تک پانامہ کیس کی تحقیق میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ہے۔ شریف فیملی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن جج محمد ارشد ملک کے پاس العزیزیہ ریفرنس اور فلیگ شپ ریفرنس سماعت کے لیے مقرر ہوئے تو مسلم لیگ ن نے اپنی پرانی روایت کوبرقرار رکھتے ہوئے جج کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا۔ جب معاملہ مزید مشکوک ہونے کا خطرہ لاحق ہوا تو پیسوں کا لالچ دیا گیا جب اس سے بھی بات نہ بنی تو بلیک میلنگ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بریف کیس دینا اور دھمکیاں دینا اور عدلیہ پر حملہ کرنا ن لیگ کی پرانی عادت ہے۔ اس لیے اسلام آباد ہائیکورٹ نے جج ارشد ملک کی خدمات واپس لے کر اس سارے معاملے کی تحقیق کا فیصلہ کیا ہے۔ ویڈیو اور جج ارشد ملک کے بیان حلفی کی روشنی میں اس سارے معاملے کی غیرجانبدار تحقیق ہونی چاہیے تاکہ عوام کے سامنے سچ آ سکے لیکن مبینہ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مسلم لیگ ن کا یہ مطالبہ کہ میاں نوازشریف کو سزا دبائو کے تحت دی گئی تھی اسے معطل کریں کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے کے مطابق کسی جج کے متنازعہ ہونے سے اس کے فیصلے فور ی طور پر کالعدم نہیں ہوتے۔ مسلم لیگ ن اگر اس معاملے کو اعلیٰ عدالتوں تک لے جاتی ہے تو عدالت ازسرنو پورے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے کسی اور جج کو مقرر کر دے گئی تاکہ وہ موجود شواہد کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لے کہ مجرم میاں نوازشریف کے ساتھ کوئی زیادتی تو نہیں ہوئی۔ عدالتی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جج کے مس کنڈکٹ کی وجہ سے کسی مقدمے کا ری ٹرائل کیا گیا ہو لیکن مسلم لیگ ن تو شروع سے ہی کہہ رہی ہے کہ وہ میاں نوازشریف کا فیصلہ عوامی عدالت میں لے کر جائے گی ۔ لہٰذا وہ عوامی عدالت سے میاں نوازشریف کو رہا بھی کروالے۔ لیکن اگر مسلم لیگ ن نے معاملہ آئین و قانون کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے توقانونی ماہرین کے نزدیک اس کے تین آپشن ہیں۔ مبینہ ویڈیو فرانزک آڈٹ میں درست ثابت نہیں ہوتی تو اپیل میں فیصلہ برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ دوسرا آپشن اگر ویڈیو درست ہے اور شواہد سے یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ فیصلہ دبائو کے تحت دیا گیا ہے تو ہائیکورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ازسرنو کسی اور عدالت میں کیس کا دوبارہ ٹرائل کا حکم دے سکتی ہے جبکہ تیسرے آپشن میں ہائیکورٹ کیس تمام شواہد کو دیکھنے کے بعد میاں نوازشریف کے وکلاء سے منی ٹریل طلب کر کے فیصلہ دے سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ میاں نوازشریف کی خلاصی ممکن نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ اداروں پر دبائو ڈال کر اپنی من پسند کا فیصلہ لینا چاہتی ہے جو موجودہ دور میں مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ ماضی میں عدالتوں کو دبائو میں لا کر فیصلے کرانے کی مثالیں موجود ہیں۔ شاید اسی روایت کو دہراتے ہوئے مسلم لیگ ن نے یہ راستہ اختیار کیا ہو۔ جج ارشد ملک کا تحریص و لالچ اور ڈرائو دھمکائو کے دوران اپنے سپروائزر جج کو حقائق سے آگاہ نہ کرنا بھی کئی سوالات کو جنم دیتا ہے جس کی تحقیق از حد ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے ویڈیو معاملے کی سماعت سولہ جولائی کومقرر کردی ہے جس میں عدالت پر الزام تراشی اور بہتان انگیزی کا جائزہ لیا جائے گا۔ جج پر دبائو ڈالنا، رشوت کی پیشکش کرنا اور دھمکیاں دینا سنگین نوعیت کے الزامات ہیں، ان کا جائزہ لے کر تمام کرداروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنی چاہیے تاکہ اس کیس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ مبینہ ویڈیو کے ذریعے ن لیگ نے مظلوم بننے کی کوشش کی ہے لیکن اسے سپریم کورٹ کے فیصلے تک خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ آئے روز پریس کانفرنسیں اور رونا دھونا کیس کو مزید خراب کر سکتا ہے۔