سولہ فروری کا ہنگامہ خیز دن وطن عزیز میں ایک اور خبر خیزدن تھا ۔خبروں کا سیلاب امڈا ہواتھا،ایک کے بعد ایک خبر آرہی تھی، منبع اسلام آباد کا پوش علاقہ ایف سیکٹر تھا جہاں مراد سعید صاحب کی شکایت پر سرکاری ہرکارے سرعت سے متحرک ہوئے۔ ایف آئی اے اسلام آباد میں ،ماحو ل گرم کر چکی تھی جس کے بعد سارا دن بریکنگ نیوز چلتی رہیں ۔سیلا ب کے ایک ریلے کے بعد دوسرا ریلا آتا رہا ،اپوزیشن نے بھی اس ساری صورتحال میں حکومت مخالف کڑوے کسیلے بیانات چھوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا ،نیوز چینلوں کی سکرینوں کی تہہ میں قطار باندھے لفظ سرکتے رہے ،ان میں کہیں بھی لعل خان کا نام نہ تھا۔ ایک چھوٹے بے وسیلہ طبقے کے لعل خان سے جڑی بڑی خبر نیوز اینکروں کے لبوں تک آنے کے لئے احتجاج کرتی رہ گئی لیکن نقار خانے میں طوطی کی آوازکون سنتا ہے۔ کسی نیوز چینل نے اس خبرپربریکنگ نیوز کے ’’پھٹے ‘‘کیا مارنے تھے ٹیلی وژن سکرین پرتہہ میں لال نیلی پیلی پٹی پر سرکتے الفاظ تک نہ ڈالے ۔ لعل خان کا تعلق میرے اور آپ کے طبقے سے تھا اس کے نام سے پہلے کچھ لگتا تھا او ر نہ ہی آخر میں کوئی لاحقہ تھا۔وہ بیوروکریٹ تھا،وڈیرہ جاگیردار اور نہ ہی کسی طاقتور شخص کا بھائی بھتیجا۔ شائد اسی لئے جیل میں تھا ،لعل خان راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کاپکا قیدی تھا وہ اغوا ء برائے تاوان کے جرم میں اپنے کئے کی سزا بھگت رہا تھا۔اس کی شخصیت کا یہ پہلو یقینا کریہہ ہوگا لیکن بتانے والی بات اس سے آگے کی ہے۔ دوران قید لعل خان کی طبیعت بگڑ ی اور یہ سچ میں بگڑی تھی ، سیاسی قائدین کی بگڑنے والی وہ طبیعت نہ تھی جو جیل میں آنے سے پہلے بگڑتی ہے اور باہر نکلتے ہی سنور جاتی ہے۔ لعل خان کو جیل کلینک لے جایا گیا،ڈاکٹروں نے دوا دارو کیا لیکن لعل خان کو آرام نہ آیا۔ مجبورا جیل حکام نے سرکاری اسپتال بھیجا ۔وہاں ایک کے بعد ایک ٹیسٹ ،کتنے ہی ٹیسٹ کئے گئے جن کا ایک ہی نتیجہ آیا کہ لعل خان کو کینسر نے آ لیا ہے ۔ جیل میں کینسر کا کیاعلاج ہوتا ہوگاخیر جو بھی ہو سکتا تھا ہوا ہوگا جس کے بعد جیل انتظامیہ نے بھی ہاتھ اٹھا لئے ۔کینسر بہت بڑھ چکا تھا۔اس کاعلاج وہاں ممکن نہ تھا ۔لعل خان بے شک جیل کی چار دیواری میں تھا لیکن جیل میں زندگی بالکل ہی بے وقعت تو نہیں ہوجاتی۔ لعل خان کو بھی جان پیاری تھی اس نے 2020 میں طبی بنیادوں پر سزا کی معطلی کے خلاف درخواست دائر کی کہ اپنا علاج کراسکے بالکل ویسے ہی جیسے نومبر 2019 میںنواز شریف صاحب نے لاحق بیماری سے نجات کے لئے درخواست دائر کی تھی معاملہ انسانی جان کا تھا اس لئے اس کی حساسیت دیکھتے ہوئے عدالت ہفتہ وار تعطیل کے باوجود لگی اورفیصلہ کے بعد ہی اٹھی جس کے بعد میاں صاحب علاج کے لئے ملک سے باہر ایسے گئے کہ پلٹ کر نہیں آئے ۔حکومت کی واپس آنے کے لئے دی جانے والی وعیدیں تڑیاں،کچھ کارگر نہیں ہورہا۔ میاں صاحب کا کہنا ہے کہ شافی علاج کے بعد ہی وطن واپس آؤں گا۔ لعل خان کے ذہن میں بھی یہی بات ہوگی کہ وہ میاں صاحب کی طرح لندن بھیجا جا ئے یا باہر آکر کسی اسپتال سے دوا داروہی کرالے ۔اس کے سامنے اب ایک فیصلے کی نظیر تھی جو امیدباندھ رہی تھی ۔پھر اس کی بیماری آسیبی یا پوشیدہ تونہیں تھی۔ اس کے پاس رپورٹوں کا پلندہ موجود تھا۔وہ کینسر کی جکڑ میں لمحہ لمحہ مر رہاتھا۔ مرنے سے اسے بھی انکار تو نہ تھالیکن وہ چاہتا تھا کہ اس کی سانسیں اپنے پیاروں کے درمیان اکھڑیں۔اس کا دم نکلے تو اس کے پیارے اس کے آس پاس ہوں۔ اس نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی اور امید باندھ کر انتظار کرنے لگا۔ اس کے ساتھی قیدی بھی بظاہراس سے ہمدردی کا اظہار کرتے اسکی ہمت بندھاتے رہے لیکن جب آپس میں بات کرتے تو یہی کہتے کہ لعل خان نوازشریف تو نہیں دیکھ لینا کیاہوگا۔ اور ایسا ہی ہوا۔لعل خان انتظارکرتا رہا ،کرتارہاا ور کرتا چلا گیا اور پھر سولہ فروری 2022 کا وہ مبارک دن بھی آگیا جب سپریم کورٹ نے لعل خان کا نام اس کی ولدیت کے ساتھ پکارا۔ لعل خان کا وکیل علی عمران عدالت کے سامنے پیش ہوااورافسردگی سے کہا کہ لعل خان کو اب کسی علاج کی ضرورت نہیں،وہ تو دو برس پہلے ہی مرچکا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ لعل خان کے وکیل کے اس انکشاف پرمعزز عدالت کے جج صاحبان اور وہاں موجود لوگوں کے چہرے پر کیا تاثرات ہوں گے۔ یقینا کمرہ ء عدالت میں افسردگی سی چھا گئی ہوگی لیکن یہ پہلی بار تو نہیں ہوا۔ 2017ء میں بھی لاہور ہائی کورٹ میں ایسی ہی اداسی چھا ئی تھی جب معزز عدالت نے قتل کے الزام میں قیدسید رسول کی سزا کالعدم قرار دے کر اسے رہا کرنے کاحکم دیا تھا۔ ملزم کے وکیل نثاراے کوثریہ خوشخبری لے کرجیل میں ملزم کو تلاش کرتا رہا لیکن کہیں سراغ نہ مل۔ا جب گھر والوں سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ سید رسول تو2014ہی میں زندگی کی قید سے آزاد ہوچکا تھا۔ ہمارے ملک کا نظام عدل گل سڑ چکا ہے،سائل منصف تک پہنچ ہی نہیں پاتا ۔ماتحت عدالتوں کو جانے دیں ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں زیر التواء کیسز کی تعداد31جنوری 2022تک 53ہزار 547تک جاپہنچی ہے ۔مقدمات کے اس انبار میں لعل خان ،سید رسول کی عرضیاں کتناہی پھڑپھڑا لیںکتنا ہی زور مار لیں ان کی فائلوں کے سرکنے کی رفتار ایک انچ فی گھنٹہ سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے۔ برا تو لگے گالیکن سچ یہی ہے کہ ہمارے ملک میں انصاف اسٹورٹ ہوگیز کے ڈائمنڈ ایڈیشن سوٹ کی طرح لگژری ہے جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ یہ وہ حسینہ ہے جسکی مسکان اور توجہ قسمت والوں کو ہی ملتی ہے اور اب کیا یہ بھی بتایاجائے کہ وہ قسمت کے دھنی لوگ کون ہوتے ہیں ! ان باوسیلہ بارسوخ لوگوں کے نام کچھ بھی ہوں وہ لعلوں میں کھیلتے بڑے ہوتے ہیں!