لفظوں کا اعتبار تب تک قائم رہتا ہے جب ان سے وابستہ معنی اور مفہوم کو ایک امانت کی طرح معتبر سمجھا جائے اورانہیں احتیاط اور سوجھ بوجھ کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ یہ دور ہر شے کے بے دریغ استعمال کا دور ہے اور ہم نے لفظوں کو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رکھا۔ لفظوں کی شاندار اونچی اونچی مسندیں بنا کر ان لوگوں کو اس پر بٹھایا جو اس کے اہل نہ تھے۔ ویسے لفظوں کی کہانی بڑی دلچسپ ہوتی ہے۔ جس انداز میں اور جس طرح ہم ان لفظوں کو استعمال کرتے رہتے ہیں رفتہ رفتہ وہی لفظ اپنے لفظی معنی بدل کر اس طرح سے سمجھے اور برتے جانے لگے ہیں جس انداز میں ہم انہیں ایک خاص عرصہ تک استعمال کرتے رہے۔ لفظوں کے یہ معنی Connotative meaning کہلاتے ہیں جبکہ لفظی معنی کو ہم Demotative meaning کہتے ہیں۔ لفظوں کے معنی کے حوالے سے یہ وضاحت اور تقسیم کو سمجھنے میں انگریزی زبان ہماری مدد کرتی ہے جن میں باقاعدہ ایک پورا مضمون اس حوالے سے جسے Semantics کہا جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ لفظوں کے معنی بدلنے کا یہ سفر Semantic Change کہلاتا ہے۔ انگریزی لسانیات سے تعلق رکھنے والے افراد تو اس مضمون کو سمجھتے ہیں اور اس تناظر میں لفظوں کی Semantic Change کا مطالعہ بڑا دلچسپ بھی لگتا ہے کہ کس طرح بدلتے وقت میں بعض مثبت معنی والے الفاظ رفتہ رفتہ منفی مفہوم میں بدل گئے۔ یہی مطالعہ اگر ہم اپنی مقامی زبان اور مقامی کلچر کے حوالے سے کریں تو ہم پر ایک بڑی دلچسپ حقیقت کھلتی ہے کہ بہت سے لفظ جنہیں ہم کل تک مثبت معنوں میں استعمال کرتے تھے یا جو ابھی بھی ڈکشنری میں مثبت مفہوم بتانے میں کس طرح منفی معنی دینے لگے اور یہ بھی کہ کس طرح سماجی سیاسی اور معاشرتی حالات لفظوں کے معنی پر اثر انداز ہوتے کہ ان لفظوں کے Connotative مفہوم ان کے لفظی مفہوم سے بالکل مختلف ہو جاتے ہیں۔ انگریزی میں ایک لفظ ہے Fascilitator جس کا اردو ترجمہ ہم نے سہولت کار کیا۔ اب اس کا لفظی معنی تو یہ ہے کہ کسی کام میں مددگار انسان جو کام کو آسان بنا دے۔ لیکن یہ لفظ اپنے اپنے لفظی مثبت مفہوم کی بجائے ایک منفی کانوٹیشن میں سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً جیسے ہی آپ نے میرے کالم میں لفظ سہولت کار پڑھا ہو گا آپ کے ذہن میں ایک ایسے ملک دشمن شخص کا تصورابھرا ہو گا جو دہشت گردوں کا آلہ کار بن کر دہشت گردی کے گھنائونے کھیل کا حصہ بنتا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ سر اعظم شاہد نے لسانیات کا کوئی ٹاپک پڑھاتے وقت اس لفظ کی مثال دی تھی کہ کیسے وقت کے ساتھ معنی اپنے لفظی مفہوم سے بالکل الگ ہو کر کوئی نیا معنی دینے لگتے ہیں اور لفظ سہولت کار یا فیسیلٹی ٹیٹر اس کی ایک کلاسک مثال ہے۔ کچھ دلچسپ مثالیں میں آپ کو اپنے سیاسی منظر نامے سے دینا چاہوں گی۔ ایک لفظ ہے مفاہمت۔ کتنا مثبت مفہوم ہے اس کا اس میں برداشت، سمجھوتہ، مطابقت، سلجھائو سب مفہوم موجود ہیں لیکن جیسے بھی ہم بولتے ہیں۔ مفاہمت کی سیاست تو اس مثبت لفظ کا مفہوم بالکل بدل جاتا ہے۔مفاہمت کی سیاست کی اصطلاح کے ساتھ ہی آپ کے ذہن میں وطن عزیز میں ہونے والی سیاست کا نقشہ ابھرتا ہے جس میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے سب جائز سمجھا جاتا ہو۔ مفاہمت کی سیاست کا سیدھا سادہ مطلب اپنے اقتدار کو بچانے، اقتدار کو حاصل کرنے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر طرح کی اخلاقی اقدار کی پامالی ہے۔ آج کل ہمارے ہاں ووٹ کو عزت دو۔ کی نئی اصطلاح بھی خاصی ان ہے۔ مسلم لیگ کے حالیہ سیاسی بیانیے کی بنیاد اسی نعرے پر ہے۔ لفظی معنی دیکھیں تو کس طرح مثبت مفہوم ہے کہ ووٹ کو عزت دو۔ یعنی جو ووٹ لے کر آپ اقتدار میں آتے ہیں پھر اس کا بھرم رکھیں۔ عوام سے جو وعدے، دعوے اور خواب دکھا کر سیاستدان ووٹ لیتے ہیں پھر اقتدار میں آ کر وہ وعدے پورے کریں اسی سے اس ووٹ کی تکریم ہوگی۔ لیکن درحقیقت پاکستان کے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں استعمال ہونے والا یہ نعرہ اپنے لفظی مفہوم سے قطعاً مختلف معنی رکھتا ہے۔ جب عدالت سے نااہل ہونے والا سابق وزیراعظم یہ نعرہ لگائے تو اس کا مطلب ہے کہ میرے بھولے عوام مجھ پر اثاثے چھپانے اور منی لانڈرنگ کے جو بھی الزامات ہیں انہیں نظر انداز کرو۔ صرف مجھے ہی ووٹ دو اور ایک بار پھر مجھے اقتدار دو تاکہ میں رہی سہی کسر بھی پوری کرسکوں۔ تبدیلی کا نعرہ ہماے ہاں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کوئی بیس برس قبل لگایا جب انہوں نے اپنی جماعت تحریک انصاف کی بنیاد رکھی اور ’’سٹیٹس کو‘‘ کی حامل دو نوں سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو چیلنج کیا اور عوام کے سامنے آپشن رکھا کہ تحریک انصاف پڑھے لکھے نوجوانوں کے ساتھ ملک میں تبدیلی لائے گی۔ یوں یہ لفظ ’’تبدیلی‘‘ لوگوں کے ذہنوں میں ایک ایسے سیاسی منظر نامے کا تصور ذہن میں لایا جس میں گھاگ، مفاد پرست، گھسے پٹے سیاستدانوں کی بجائے انہیں شفاف سیاسی اور اخلاقی کردار کے حامل قابل نوجوان سیاسی رہنما ملک کی خدمت کرتے نظر آئیں گے اور چہروں کی اس تبدیلی کے ساتھ ہی ملک میں ایک ہمہ گیر سیاسی اور سماجی تبدیلی آ جائے گی۔ گزشتہ چند برسوں میں تحریک انصاف نے عروج کا سفر طے کرنا شروع کیا۔ دھرنے کا کنٹینر ہو کہ پریس کانفرنسوں کا ہجوم عوام نے یہ لفظ کپتان کے منہ سے بارہا سنا۔ ’’اب تبدیلی آئے گی‘‘ ’’تبدیلی آ نہیں رہی۔ تبدیلی آ گئی ہے۔‘‘ اور اب رفتہ رفتہ یہ لفظ تبدیلی بھی اپنے مفہوم سے الگ ہو کر ایک نئی کانوٹیشن میں سمجھا جانے لگا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کپتان خان جس بنیاد پر تبدیلی لانے کا دعویٰ کرتے تھے وہ بنیاد اب منہدم ہو چکی ہے۔ وہ جن سیاستدانوں کو سٹیٹس کو اور کرپشن کی علامت قرار دیتے تھے اب الا ماشاء اللہ ان کے گرد انہی گھاگ سیاستدانوں کا اکٹھ ہے جنہیں وہ الیکٹ ایبلز کہتے ہیں۔ سو جن دو بڑی سیاسی جماعتوں کی کرپشن اور بددیانتی کو عمران خان اپنی لفظی بمباری کا نشانہ بناتے تھے۔ انہی سیاسی پارٹیوں سے آنے والے سیاست کے پرانے کھلاڑیوں کی موجودگی میں لفظ ’’تبدیلی‘‘ اپنے معنی کھو دیتا ہے۔ بہتر ہو کہ کپتان اب اپنے اس سیاسی انقلاب کو تبدیلی سے مشروط نہ کریں یعنی ’’تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام۔‘‘ ایک سیاسی نعرہ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے استعمال ہورہا ہے وہ ہے روٹی، کپڑا اور مکان۔ لیکن جس طرح اس نعرے کے ذریعے عوام کا مسلسل استحصال ہوا اب یہ نعرہ اپنے لفظی معنی کھو چکا ہے۔ اب اس نعرے کا مطلب ہے عوام کا استحصال کرنا۔ اسی لیے اس بار پیپلزپارٹی بہت سنجیدگی سے غور کر رہی ہے کہ وہ الیکشن مہم میں کسی نئے نعرے کیساتھ میدان میں اترے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ اپنا مفہوم کھو چکا ہے۔ حال ہی میں لفظ Electables کا بہت استعمال ہورہا ہے۔ ڈکشنری کے مطابق تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے سیاستدان جو الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ لیکن ہمارے ہاں اس لفظ کا مفہوم بھی مثبت کی بجائے قدرے منفی ہے۔ یعنی وہ لوٹے سیاستدان جو آسانی سے نظریات اورپارٹیاں بدل سکیں اور جو الیکشن جیتنے کے تمام حربے جانتے ہوں۔ اردو لفظ حربے کی کانوٹیشن بھی مثبت سے زیادہ منفی ہے۔ کالم اختتام پذیر ہورہا ہے لیکن اس موضوع پر ابھی بہت دلچسپ باتیں کہنی رہ گئی ہیں۔ انشاء اللہ پھر کبھی فی الحال آپ ان لفظوں سے لطف اندوز ہوں جو اپنے پرانے مفہوم سے الگ ہو کر نئے معنوں میں ڈھل چکے ہیں۔