مگر‘ان تمام باتوں کے باوجود ہمیں اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے۔ہم یہ جانتے ہیں کہ ہماری دنیا یعنی دنیائے اسلام بطور ایک مستقل ثقافتی عنصر اپنی حقیقت کھو چکی ہے۔میں یہاں مسلمانوں کے سیاسی زوال کی بات نہیں کر رہا۔کہنا یہ ہے کہ ہماری موجودہ صورت حال کے اہم ترین خدوخال ذہنی اور سماجی دائروں میں ملتے ہیں جن میں ہمارے ایمان کی گمشدگی اور ہماری سماجی ڈھانچے کی تہس نہس شامل ہیں۔پرانی پختگی جو اسلامی معاشرے کے ساتھ مخصوص تھی‘اس میں سے تو بہت ہی کم بچا ہے۔جس ثقافتی اور سماجی بحران سے آج کل ہم گزر رہے ہیں‘اس کی صورت حال بتا رہی ہے کہ وہ میزانی قوتیں جو عالمِ اسلام کی عظمت کی حامل تھیں‘آج تھک چکی ہیں‘ہم طاقتور موجوں کے ساتھ بہہ رہے ہیں اور کسی کو بھی نہیں معلوم کہ ہم کس ثقافت کی طرف جا رہے ہیں۔ہم میں کوئی اخلاقی جرات باقی نہیں رہی اور نہ ہی ہم میں اتنی قوت مزاحمت ہے کہ ہم ان غیر اسلامی اثرات سے بچ پائیںجو ہمارے مذہب اور معاشرے کو تباہ کئے دے رہے ہیں۔ہم نے ان بہترین اخلاقی تعلیمات کو رد کردیا جن کی نظیر نہیں ملتی۔ہم نے اپنے ایمان سے وفا نہ کی جبکہ ہمارے آبائو اجداد کے لئے وہ ایک جیتا جاگتا ولولہ تھا۔ہم تو شرمسار ہیں جبکہ وہ لبالب بھرے ہوئے تھے۔ ہر سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان اس سینہ زنی سے واقف ہے۔ہر شخص نے اسے بار بار دہراتے ہوئے سنا ہے۔کوئی پوچھ سکتا ہے کہ آخر اسی کو ایک بار اور دہرانے سے کوئی فائدہ!میرے خیال میں تو اس کا ایک فائدہ ہے۔اس لئے کہ اب ہمارے پاس اپنے زوال پر شرمندگی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں سوائے اس کے کہ ہم اس شرمندگی کا اعتراف کر لیں اور وہ بھی دن رات۔ اس حد تک کہ ہم اس کی تلخی کا مزہ چکھ لیں اور اس کے اسباب دور کرنے کا ایک مصمم ارادہ کر لیں۔احساس چھپا کر حقیقت کو اپنے آپ سے بھی چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں۔پھر ہمارا اس زعم میں رہنا کہ اسلامی دنیا اپنی اسلامی سرگرمیوں میں مصروف ہے‘ہمارے تبلیغی ادارے ‘چار دانگ عالم میں اپنی دھوم مچائے ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی کہ اب مغرب کے لوگوں کو اسلام کے جمال کا زیادہ سے زیادہ احساس ہو چلا ہے۔اس طرح کے زعم میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔نہ ہی اس سے کوئی فائدہ ہو گا کہ ہم تاویلی دلائل گھڑ کر اپنے آپ کو یقین دلاتے رہیں کہ ہم ابھی ذلت کی انتہا کو نہیں پہنچے کیونکہ ذلت کی تو انتہا ہو چکی ہے۔ تو پھر کیا‘انجام یہی ہونا ہے! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ہماری تجدید کی تمنا اور پھر ہم میں سے بہت سوں کی خواہش ہے کہ ہم جو کچھ ہیں اس سے بہتر ہوں‘ہمیں اس اُمید کا حق دلاتی ہے کہ ابھی ہمارا خاتمہ ہوا نہیں۔تجدید کی ایک اپنی راہ ہوتی ہے اور وہ راہ ان لوگوں کو صاف نظر آ رہی ہے جن کی آنکھیں سلامت ہیں۔ ہمارا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اسلام کی مدافعت کرنا بالکل ترک کر دیں کیونکہ اس مدافعت کا دوسرا نام ذہنی شکست خوردگی ہے جو ہماری اپنی تشکیل کا ایک بہروپ ہے۔دوسرے مرحلے میں ہمیں سنتِ رسولؐ کی شعوری اطاعت کرنا شروع کر دینا چاہیے کیونکہ سنت کی پیروی کے معنی اسلامی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کے سوا کچھ نہیں۔اگر ہم اپنی ضروریات زندگی کو اس کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دیں تو ہمیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ مغرب کی کون سی بات کو قبول کر لینا چاہیے اور کس بات کو رد۔بجائے اس کے کہ ہم انتہائی عاجزی کے ساتھ اسلام کو غیر اسلامی معیارات پر پرکھیں ہمیں یہ بات پھر سے سیکھنا ہو گی کہ ہم اسلام کو معیار بنا کر دنیا بھر کو اس کے پیمانے پر ناپیں۔ بہرحال یہ ایک سچ ہے کہ اسلام کے کئی ایک بنیادی مقاصد کو ناکافی‘مگر قبول شدہ تاویلات کی بناء پر غلط تناظر میں پیش کیا گیا۔یہی وجہ تھی کہ وہ مسلمان جن کی رسائی بنیادی مآخذ تک نہ تھی‘جن سے وہ اپنے خیالات کی تشکیل نو کرتے‘ایسے لوگ کسی حد تک بعض اُمور میں اسلام کی بگڑی ہوئی شکل سے دوچار ہو گئے۔وہ ناقابلِ عمل قضیات جو آج کل خود ساختہ ’’کٹر‘‘ لوگوں کی طرف سے اسلام کی بنیادی شرائط کے طور پر پیش کی جا رہی ہیں زیادہ تر سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ ان بنیادی مفروضات کی رسمی تعبیر ہیں جن کی قدیم بنیاد افلاطونی منطق پر تھی اور جو دوسری تیسری ہجری میں ’’جدید‘‘ یعنی قابل عمل بھی ہو سکتی تھی مگر جو اب انتہائی متروق ہو چکی ہیں۔مغربی خطوط پر تعلیم حاصل کرنے والا مسلمان جو زیادہ تر عربی سے ناواقف اور ’’فقہ‘‘ کی باریکیوں سے نابلد ہوتا ہے‘اُنہی ناکارہ اور من مانی تاویلات و تصورات کو قانون دہندہ کے اصل مقاصد سمجھ بیٹھتا ہے اور ان کے غیر منطقی ہونے پر اکثر مایوسی کے عالم میں انہی کو قانون شریعت سمجھ کر ان سے پیچھے ہٹنے لگتا ہے۔انہیں مسلمانوں کی زندگی میں دوبارہ ایک تخلیقی قوت اجاگر کرنے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اسلامی قضیات کو ان کے اصلی مآخذ کی روشنی میں اور رسمی تاویلات کی صدیوں پرانی تہوں سے الگ کر کے‘اُن پر نظرثانی کی جائے کیونکہ اب وہ جدید تقاضوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ممکن ہے کہ ان کوششوں کے نتیجے میں ایک نئی تحریک جنم لے جو اسلام کے دو بڑے مآخذ یعنی قرآن و سُنت نبویؐ کے عین مطابق ہو اور ساتھ ہی ساتھ آج کل کی زندگی کی ہنگامی صورت حال کے بارے میں بھی کوئی جواب دے سکے۔بالکل اسی طرح جس طرح تحریک کی پرانی صورتوں نے اُن ہنگامی حالات میں جواب دیا تھا جب ارسطاطیسی اور نو افلاطونی فلسفے ماحول پر چھائے ہوئے تھے۔ لیکن ہم ایک بار پھر اوپر پرواز اسی وقت کر سکیں گے جب ہم اپنی کھوئی ہوئی خود اعتمادی دوبارہ حاصل کر لیں۔ہمارے اپنے معاشرتی اداروں کو تباہ کر کے اور غیروں(غیر صرف تاریخی اور جغرافیائی معنوں میں نہیں بلکہ روحانی معنوں میں بھی)کی تہذیب کی نقالی کر کے ہم اپنی منزل حاصل نہیں کر سکتے۔ آج کی صورت حال کے مطابق‘اسلام کی حالت زار ایک ڈوبتی کشتی کے مانند ہے۔اسلام کی مدد کے لئے تمام ہاتھوں کی ضرورت ہے۔مگر وہ بچے گی صرف اس صورت میں جب مسلمان قرآن کریم کی آوازیں سُنیں اُسے سمجھنے لگیں۔ لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اللہ والیوم آلاخر (سورۃ الحزاب ‘33.21) ’’حقیقتاً ‘پیغمبر کی صورت میں تمہارے لئے بہترین مثال موجود ہے جن کی نظریں اللہ اور روز محشر پر لگی ہوئی ہیں۔(ختم شد)