شہر اقتدار میں گذشتہ چار روز سے اہم سرکاری امُور ٹھپ ہوچکے ہیں۔سرکاری و نجی دفاتر ہوں یاریسٹورنٹس ‘ڈرائنگ رومز میں سجی محفلیں ہوں یا نجی ٹرانسپورٹ سروس‘ہرجگہ پر ایک ہی سرگوشی ہے کہ ایک اعلی عہدے پر تقرری کے معاملے پر تین رکنی وزرا ء کمیٹی کے تمام ترجتن کے باوجود معاملہ حل نہیں ہوسکا۔وزیر دفاع اوروزیر داخلہ کا کمیٹی میں شامل ہونے سے معذوری کا اظہار کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔افواہوں اور سرگوشیوں کیساتھ سوالات کی بھرمار ہوچکی ہے کہ آخر اب ہوگاکیا۔کچھ وزراء اور مشیران بھرپور تسلیاں دے رہے ہیں کہ سب اچھا ہوگا ۔ میں نے افواہوں اور سرگوشیوں کی بجائے وزراء کی تسلیوں پر دل کو مطمئن کرلیا ہے کہ قومی مفاد میں حکومت یقینا جلد بہترین فیصلہ کرے گی، جس سے تمام افواہیں اور سازشی تھیوریاں دم توڑ جائیں گی، مگرمجھے اصل پریشانی یہ لاحق ہے کہ بدانتظامی کے باعث عوام کا کچومر نکلنے جارہا ہے۔ایسے میں وزیراعظم سمیت پوری ٹیم کی تمام ترتوجہ مستقبل کی شطرنج پر لگی ہے۔ایسی شطرنج جو کبھی اقتدار ہاتھ سے نہ نکلنے دے مگر کیا عوام کے دکھوں کا مداوا اور بہتر ین کارگردگی کا مظاہرہ کئے بغیر کسی کو دوبارہ اقتدار کی مسند نصیب ہوئی ہے؟ گذشتہ تین ماہ کے دوران صرف گندم اور چینی کی درآمد میں بدترین بد انتظامی اور کاریگروں کی مہارت کے باعث 20ارب روپے سے زائد نقصان ہوچکا ہے۔اب عوام کو قیمت بھی اضافی ادا کرنا پڑے گی، جومقامی مارکیٹ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔اعلٰی سطحی اجلاس کے دوران جب یہ انکشاف ہوا،تو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے فیصلہ کیا گیا کہ عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کے تناظر میں قوم کو ریلیف دینے کیلئے چینی کی قیمت پر سبسڈی اور چینی درآمد میں تاخیر سے اربوں روپے نقصان پہینچانے والے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔کابینہ ارکان نے تاخیر سے مہنگے داموں چینی درآمد کرکے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچانے والوں کو بے نقاب کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کا پرزور مطالبہ کیا تھا کیونکہ وزراء کو اپنے اپنے حلقوں میں اپنے ووٹرز کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے یقین دہانی کرائی کہ تاخیر سے مہنگے داموں چینی درآمد کرنے والوں کے خلاف انکوائری کرکے ہرصورت سزا دی جائے گی۔ساتھ ہی ایک لولی پاپ دیدیا گیا کہ وزارت صعنت و پیداوار اور فوڈ سکیورٹی کے ساتھ مشاورت کرکے سبسڈی کا میکنزم تیار کرے۔ دوران اجلاس انکشاف کیا گیا کہ 70 فیصد چینی مشروبات،بسکٹ اور ٹافیاں بنانے والی صنعت استعمال کرتی ہے جبکہ عوام صرف 30 فیصد چینی استعمال کرتے ہیں۔وزیر خزانہ نے اجلاس میں درآمد کی گئی چینی اور صوبوں کی جانب سے چینی کی مقرر کردہ قیمت بارے تقابلی جائزہ پیش کیا اور بتایا کہ وفاقی حکومت چینی صوبوں کی جانب سے مقررہ کرد ہ قیمت 89 روپے 75 پیسے فی کلو پر خریدتی ہے۔ متعلقہ ڈویژن نے بریفنگ میں بتایا ملک میں چینی اور گندم کی معقول مقدار موجود ہے اور دونوں اشیاء کی مزید درآمد کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تاہم وزیر خزانہ کا موقف تھا کہ ملک میں چینی اور گندم کے اسٹاک کی صورتحال تسلی بخش ہے لیکن ممکنہ خدشات اور حادثے کے پیش نظر اسٹرٹیجک ریزرو رکھنا بہتر ہوگا۔ دوران اجلاس فیصلہ کیا گیا چینی کی قیمت پر ہر صورت عوام کو سبسڈی دی جائے گی تاکہ عوامی غم وغصے میں کمی لائی جاسکے۔گندم اور چینی کی درآمد میں بد انتظامی اور نااہلی کے نتیجے میں صرف تین ماہ کے دوران عوام کو 20ارب روپے کا ٹیکہ برداشت کرنا پڑا ہے۔ حکومت اگر صرف مقامی انڈسٹری کیساتھ مشاورت کرکے اعتماد کی فضاء بحال کردیتی تو عوام کو چینی اور گندم کی درآمد میں اربوں روپے کا جھٹکا برداشت کسی صورت نہ کرنا پڑتا۔ بد انتظامی کی ایک اور داستان بھی جان لیجئے۔ وفاقی حکومت نے سروسز انٹرنیشنل ہوٹل لاہور کی کم قیمت میں فروخت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کی جانب سے ہوٹل کو ایک ارب 95 کروڑ روپے میں فروخت کرنے سے روک دیا ہے۔نجکاری کمیٹی کے فیصلے کی توثیق بھی موخر کردی گئی ہے،جس کے باعث سروسز انٹرنیشنل ہوٹل کی بولی کا عمل منسوخ ہونے کا امکان ہے ۔ کم بولی وصول ہونے کی بنیادی وجہ کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دینے کے کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ پانچ ماہ قبل وفاقی کابینہ نے اونچائی کی حد بڑھاتے ہوئے سول ایوی ایشن کا این اوسی جاری کرنے کا اختیار ختم کرتے ہوئے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز کو ذمہ داری تفویض کردی تھی مگر کاریگروں نے فیصلے پر عمل ہی نہ ہونے دیا۔کم بولیاں وصول ہونے کی بڑی وجہ پاکستان سول ایوی ایشن کی جانب سے عمارت کی اونچائی500 فٹ کی بجائے زیادہ سے زیادہ 245 فٹ تک رکھنے کی پابندی قرار دی گئی۔بادی النظر میں اس فیصلے کو پانچ ماہ تک اسی لئے نافذ نہیں ہونے دیا گیا کہ اس قیمتی اراضی کو15سال پرانی قیمت سے بھی کم قیمت پر خریدا جاسکے۔ وفاقی حکومت نے قیمتی اراضی کی فروخت موخر کرتے ہوئے معاملے کے پیچھے چھپے عناصر کی تلاش شروع کردی ہے۔ وزیراعظم نے ملک بھر میں ائیرپورٹس کے 15کلومیٹر کے اطراف میں ہائی رائز عمارتوں کی اونچائی کا حتمی پیمانہ طے کرنے کیلئے نیویارک،دبئی اور ہانک کانگ کی ہائی رائز عمارتوںکے معیار کو سٹڈی کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ اس سارے عمل میں نجکاری کے عمل کو جھٹکا لگا ہے ۔ پہلے ہی عالمی سرمایہ کارایسے ہتھکنڈوں کے باعث نجکاری میں دلچسپی لینے سے گریزاںہیں‘رہی سہی کسر حالیہ نجکاری کے عمل نے پوری کردی ہے۔ قومی امور اور پالیسی سازی میں بدانتظامی کہیے یا نااہلی ۔۔المیہ یہ ہے کہ تین سالوں کے دوران تمام اداروں سمیت عوام کوبھاری قیمت چُکانا پڑی ہے۔ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم آئندہ چند گھنٹو ں میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں مگربد انتظامی اور مہنگائی کا طوفان شطرنج کی تمام چالوں کواُلٹ دے گا۔