برصغیرمیں’’ہیومن ازم‘‘ کی سب سے بڑی تحریک کے داعی اور مبلّغ تو ہمارے صوفیا ہی تھے، فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے فرضی، عارضی یا نمائشی’’موم بتیوں‘‘کی بجائے ، تکریمِ آدمیت اور شرفِ انسانیت کی وہ شمعیں روشن کیں،جن کی لَو اورضَو صدیاں گزرنے کے باوجود مدہم نہ ہوئیں،کہ ان کی حیاتِ ظاہری میں اگر شمس الدین التمش، قطب الدین ایبک، غیا ث الدین بلبن اور ناصرالدین محمود حاضری کی سعادت سے بہر ہ مند ہوتے تھے،ان کے دنیا سے پردہ کرجانے کے بعد بھی وقت کے حکمران روشنی اور راہنمائی بلکہ اختیار اور اقتدار کے حصول اور استحکام کے لیے انہیں درباروں،درگاہوں اور خانقاہوں کا رُخ کرتے ہیں۔یہ خانقاہیں،مشائخ اور صوفیا کی اصلاحی جدوجہد کا مرکز تھیں،جہاں عام زائرین کے لیے ہمہ وقت قیام و طعام کا اہتمام ہوتا ،مصباح الہدایت کے مطابق’’خانقاہ‘‘دراصل’’خوان گاہ‘‘ کا مُعرب ہے، جس کے معنی ہیں’’کھانے کی جگہ‘‘۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒفرمایا کرتے تھے کہ خانقاہ میں بیٹھنا ہمدردی اور دلداری پیدا کرتا ہے، یہ خانقا ہیں اسلامی تہذیب و تمدن کا بہترین مرکز تھیں، جہاں لوگوں کی کفالت اورتربیت کا اہتمام ہوتا، تزکیہ و طہارت اور تعلیم وتعلم کے زاویے آراستہ ہوتے،مختلف طبائع اور مزاج کے حامل ایک جگہ مل بیٹھک کر، ایسے باہم شیرو شکر ہوتے کہ قومیت و وطینت کا احساس ہی ختم ہوجا تا،ان کا باہمی رابطہ اورمحبت، انسانی رشتوں پہ غالب آجاتا۔صوفیأ انسانی برادری کی وحدت کے قائل اور اعلیٰ روحانی اور اخلاقی اقدار کو ہر انسان تک پہنچانے کے خواہشمند تھے ۔"اَلْخَلْقُ عیالُاللّٰہ " پر ان کا محکم یقین اور انسانی برادری کو ایک رشتئہ اُلفت میں پرونے کے لیے کوشاں رہتے ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا یہ فرمان آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے کہ :انسان کو دریا جیسی سخاوت، آفتاب جیسی شفقت اور زمین جیسی تواضع پیدا کرنی چاہیے ۔ یعنی جس طرح ان مظاہرِ فطرت و قدرت کی فیاضیاں اور کرم بخشیاں اپنے اور پرائے کا فرق نہیں کرتیں، اسی طرح ایک انسان کا طرزِ عمل، انسانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے ۔ اکابر صوفیا کے فرمودات کے تناظر میں،ہمارے جدید اور ماڈرن بلکہ قدرے’’جعلی صوفیا‘‘ کس قد ر تکّبر،رعونت میں دھنسے، الزام تراشیوں اور بہتان طرازیوں میں اَٹے ہوئے،جھوٹ اور فکر و فریب کی بنیاد پر اپنی دکانیں چلانے کے کس قدر در پیٔ رہتے ہیں،اس کا اندازہ لگانامشکل نہیں۔اکابر صوفیأ تو’’صلح کُن با خاص و عام‘‘کے داعی تھے۔جبکہ افتراق و انتشار اور طعن و تشنیع ہمارا ہمہ وقت کا شعار ہے۔ہمارے شیوخ اور صوفیا تو مہر و محبت،خلوص و ہمدردی، رواداری اور انسان دوستی کے ذریعے انسانی قلوب کو ایک رشتئہ اُلفت میں پرونے کے لیے کوشاں رہتے، وہ کہتے تھے کہ ہمیں قینچی نہ دو۔سوئی دو، اس لیے کہ ہم کاٹنے والے نہیں جوڑنے والے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ تبلیغ و اشاعت اس وقت تک بے سود وبے کار ہے، جب تک انسانی زندگی از خود ان اصولوں کی عملی تفسیر نہ بن جائے ۔ ہمارے صوفیا بڑے تبلیغی اجتماعات اور باقاعدہ وعظ و تبلیغ کی طویل نشستوں کی بجائے۔ اچھے کردار اور حُسنِ معاشرت کو زبان اور تلوار سے زیادہ موثر جانتے تھے۔اُن کا یہی اسلوبِ فکراور طرزِ زیست دین کی ترویج کا سب سے بڑا ذریعہ بنا۔ دوروز قبل وزیر اعلیٰ پنجاب نے حضرت بابا شاہ جمال ؒ کے علاقے میں لنگر خانے کا افتتاح کرتے ہوئے لاہورمیں مزید’’ گیارہ لنگر خانے‘‘ کھولنے کا اعلا ن کیا ، تو معاً بر صغیر کے اس ’’لنگر سسٹم‘‘ کی تاریخ ذہن میں تازہ ہوئی،جس کا اعتراف لارڈ میکالے نے بھی،2 فروری1835ء پریٹش پارلیمنٹ میں اپنی تاریخی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کیا تھا، جس نے برصغیر کی مسلم تاریخ پر بہت دور رس اثرات مرتب کیئے۔ اپنی اس رپورٹ میں لارڈ میکالے نے بر صغیر کے اس مسلم تہذہبی، فکر ی اور تعلیمی نظام کا بھی ذکر کیا ، جو پوری سوسائٹی کا "Nucleus" یعنی مدار تھا، جس کی بنیادوں کو صوفیأ کی خانقاہوں نے مضبوط اور مستحکم کررکھا تھا ، جس کے سبب علم آفرینی کے ساتھ غریب پروری اور سوسائٹی کو اعلیٰ خلاق سے آراستہ کرنے کا اہتمام بھی ان خانقاہوں کے ذمہ تھا۔ اس کی مثال اگر آپ، اپنے ہاں سے لینا چاہیں، تو لاہور کو’’داتا کی نگری‘‘ سے بڑھ کر ، اور کیا ہوسکتی ہے ، کہ جہاں دین و فقر کے علاوہ روزانہ کتنے بھوکوں کو کھانا اور کتنے بے نوائوں کو آسرأ میسر آتا ہے ۔ آج زندگی کے مختلف شعبوں میں کتنے ہی نامور لوگ ایسے ہیں، کہ انہوں نے جب نصف صدی قبل، زندگی کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے لاہور کا رُخ کیا، تو ان کا’’داتا دربار‘‘ کے علاوہ کوئی اورٹھکانہ اور آسرا نہ تھا ، یہ حضرت داتاصاحب ؒ کاخصوصی فیضان ہے کہ آج بھی آنے والے زائرین کو بلا تعطل اور معیاری کھانا ہمہ وقت میسر رہتا ہے ۔ بلکہ اب تو مدینہ فائونڈیشن کی طرف سے سے کربلا معلی اور نجف اشرف کی طرز پر باقاعدہ "ڈائینگ ہال" ترتیب پاچکا ہے ۔ بہر حال لنگر خانے کے افتتاح کے اس موقع پر ، جناب وزیر اعلیٰ پنجاب نے عام حاضرین کے ساتھ،ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر ،کھانا بھی کھایا۔ قبائلی روایات میں جو وسعت ہے، اس کا عکس ہمارے وزیر اعلیٰ پنجاب کی شخصیت میں پوری طرح موجود ہے، وہ گزشتہ دنوں پاکپتن میں حضرت بابا فریدؒ کے مزار پر حاضر ہوئے تو انہوں نے وہاں بھی’’فکرِ فریدؒ‘‘ کے فروغ کی بات کی تھی،بھوکوں کو کھانا کھلانا یہ بھی ’’فکرِ فریدؒ‘‘ کے ظاہری فیضان ہی کا ایک پہلو ہے ، ہمارے صوفیأ نے بر صغیر میں جس عظیم ’’سماجی انقلاب‘‘ کی بنیاد استوار کی تھی، اس کا بنیادی اور اہم ترین عنصر ہی یہی تھا کہ انہوں نے سوسائٹی کے اُس پسماندہ اور مظلوم طبقے کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھایا ، جس کو مقامی برہمن۔ انسان کا درجہ دینے کے لیے ہی تیار نہ تھا ،اسلام کے اسی ’’ پروگریسو‘‘ سماجی طرز عمل نے بالخصوص محروم طبقات کو اپنی طرف کھینچا ،اور ذات پات کی غیر انسانی اور غیر فطرتی تقسیم کے متاثرین ، اسلام کے دامن محبت و اخوت میں بہت تیزی سے سمو گئے۔ابو ریحان البیرونی نے اپنی زندگی کے پندرہ برس ہندوستان میں،ہندو معاشرے کے مطالعہ پہ صَرف کیئے اور پھر بڑی دیانت اور ثقاہت سے اپنے مشاہدات’’کتاب الہند‘‘میں قلمبند کیئے ،جس میں اُس نے لکھا کہ تین سو سال قبل مسیح، جب برہمنی تہذیب اپنے شباب پر تھی ، تو اس عہد میں، ان کے ماہرین نے اپنی سوسائٹی کی سیاسی،تمد نی اور اخلاقی زندگی کے لیے جو قواعدو ضوابط مقرر کیئے، اس کا مجموعہ’’منوشاستر ‘‘کہلایا۔ اس آئینی دستاویز نے اہالیانِ ہند کو چار طبقات، برہمن، کھشتری، ویش اور شودرمیں تقسیم کیا ۔ شودر کی حیثیت برہمن کے غلام کی تھی ، اگر شودر یا ویش کے متعلق یہ ثابت ہوجائے کہ اس نے وید یعنی ان کی مقدس کوپڑھا ہے، تو حاکم کو اختیار ہے کہ اُسکی زبان کاٹ دے ۔ شودر اور ویش کا برہمن کیساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس نوعیت کی طبقاتی تقسیم میں ہمارے صوفیأ نے سوسائٹی کے اندر، اپنے لنگر کے وہ عظیم دستر خوان آراستہ کیئے،جو برصغیرمیں اس طبقاتی تقسیم کے خاتمہ کا ذریعہ بنے ۔ دوسری طرف صوفیأ کے باطنی فیوضات اور علمی و فکری احوال و مقامات کو عام کرنے کے لیے ، موجودہ حکومت کے’’ویژن‘‘ کے مطابق ہمارے وزیر اوقاف صاحبزادہ سیّد سعید الحسن شاہ،اپنے محکمے کی پوری ٹیم کیساتھ سرگرم عمل ہیں۔National Institute of Spiritual Studies, Pakistan (NISSP) کے قیام کے حوالے سے جناب وزیر موصوف کی ایک جامع تجویز بھی زیر غور ہے،جس کا بنیادی مقصد صوفیأ کی تعلیمات کا صحیح ابلاغ ہے، اسی سے روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔