لیجئے جہانگیر ترین نے ایک بار پھر عوام کو اور ملک کی لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لیے عوام کو مرغیاں اور چوزے پالنے کا مشورہ دیا ہے اور ساتھ ہی یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر عوام مرغیاں اور چوزے پالنے شروع کر دیں تو اس سے ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو بے مثال سنبھالا ملے گا۔ سرِدست انہوں نے کٹے پالنے کا مشورہ دوبارہ سے نہیں دہرایا۔ اس کے پیچھے بھی یقینا کوئی حکمت بھرا راز ہو گا۔ گویا پہلا مرحلہ صرف مرغیاں اور چوزے پالنے کا ہے اور اگر اس کے بعد بھی آپ کی معیشت دگرگوں رہتی ہے۔ افراد خانہ کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے، ایک وقت کی ہانڈی بنانے کے لیے دال سبزی کا اہتمام کرنا کار ندارد ہے تو اس کے لیے نئے پاکستان میں لنگر خانے کھول دیئے گئے ہیں۔ جہاں سرکار غریب عوام کو خدمت اور بھلائی کے لیے ہمہ تن مصروف ہے۔ صاحبو! اصل مسئلہ تو اس پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کا ہے۔ جو غریب پرور حکومت نے لنگر خانے کھول کر چٹکیوں میں حل کر دیا ہے۔ اگر آپ کو عزت نفس کا عارضہ لاحق ہے اور لنگروں پر جا کر قطار میں لگ کر کھانا کھانے میں خفت محسوس ہوتی ہے تو عزت نفس کے اس ہار کو گلے سے اتار کر اپنے خستہ حال مکان کے کسی کونے میں پھینک دیجئے اور اپنے بیوی بچوں سمیت گھر کے کسی قریبی لنگر خانے پر تشریف لے جائیے اور پیٹ کے دوزخ کو ٹھنڈا کرنے کا اہتمام کیجئے اور مکان کے کسی کونے میں پڑی ہوئی عزت نفس کے بارے میں پلٹ کر کبھی سوچئے بھی نا۔ اس لیے کہ حکمرانِ وقت نے غربت دور کرنے کے لیے لنگر خانے کا نسخہ استعمال کر کے ملک میں خیرات کے کلچر کو فروغ دیا ہے اور پھر یہ بھوک اور حاجت عزت نفس اور تہذیب کا بوجھ نہیں سہار سکتی۔ بے مثال شاعر افتخار عارف کے کچھ اشعار مجھے یاد آتے ہیں جو بقول ان کے انہوں نے اداسی کی کسی شدید کیفیت میں کہے تھے۔ جب انسان خود رزق کمانے بھی نکلتا ہے تو بھی اس کی عزت نفس قدم قدم پر کچلی جاتی ہے۔ کجا کہ لنگروں پر جا کر قطاروں میں لگ کر ہاتھوں میں پلیٹ اور روٹی کی چنگیر اٹھا کر مانگا ہوا کھانا کھایا جائے۔ پہلے افتخار عارف کے اشعار ملاحظہ فرمائیں اور پھر غربت مٹانے کے لیے لنگر خانے کھولنے کا مشورہ دینے والے شہ دماغوں کے اس مایوس کن فلسفے پر مزید بات اس کے بعد ہو گی۔ کہاں کے نام و نسب علم کیا فضیلت کیا جہانِ رزق میں توقیر اہل حاجت کیا شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری وقعت کیا اور اس با کمال شاعر کا ایک اور شعر دیکھئے کہ ؎ قفس میں آب و دانہ کی فراوانی بہت ہے پرندوں کو خیالِ بال و پر شاید نہ آئے! ہائے…ہائے… کیا شعر ہے، کوئی سمجھنے والا اسے سمجھے۔ کاش کہ لنگر خانے کھولنے والوں کو اس شعر میں احساس کا ماخذ سمجھ آ جائے تو انسان اور انسانی زندگی کا سارا فلسفہ ہی سمجھ آ جائے۔ کیسے کیسے قفس ہیں جہاں ہماری زندگیوں سے لے کر ہماری عزت نفس تک قید میں پڑی ہے۔ کہیں آئی ایم ایف کے قفس ہیں، کہیں ملک و قوم کا وسیع تر مفاد، قوم کے حق میں ایک قفس ثابت ہوتا ہے کہیں شخصیت پر مبنی اور سیاسی وابستگیوں کے قفس میں ہمارا شعور قید کر دیا گیا۔ بات مختصر یوں ہے کہ ہماری نفسیات کو معیشت نے یرغمال بنا لیا ہے سو ہمیں معلوم ہی نہیں کہ معاشی مجبوریوں کے اس چنگل سے نکل کر زندگی کا چہرہ کیسا دکھائی دیتا ہے۔ ٹرائل اینڈ ایرر(Trial and Error)کے اس کھیل میں ہمیں سدھانے والے ہاتھوں نے جو کچھ ہمیں سکھایا ہم وہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ کسی کو لینے اور ہاتھ پھیلانے کا عادی بنا دیا جائے تو پھر اس کی نفسیات محنت اور جفاکشی کی مشقت کو تسلیم نہیں کرتی، اس کا وجود خود کمانے کا کبھی عادی نہیں ہوتا۔ دنیا کی ہر تہذیب میں یہ فلسفہ موجود ہے کہ کسی بھوکے کو کھانے کے لیے مچھلی نہ دو بلکہ اسے مچھلی پکڑنا سکھائو۔ یہ بات چین کے قدیم دانشور کنفیوشس سے منسوب کی جاتی ہے تو ایسا ہی خیال ہمیں یورپین تہذیب سے ملتا ہے کہ اگر تمہارے پاس ایک لیموں ہو تو اس کا لیمونیڈ، یعنی لیموں کا شربت بنائو۔ اسلام کا فلسفہ تو خیر اس حوالے سے بہت ہی واضح ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اس حدیث پاک میں ایک خود کفیل اور خود انحصاری والی زندگی کا پورا فلسفہ موجود ہے۔ پھر ایک جگہ فرمایا کہ سوال نہ کرو…جوتے کا گرا ہوا تسمہ بھی اٹھانے کے لیے کسی کو مت کہو۔ گدا گری، یعنی ہاتھ پھیلانا، ہمارے دین میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ پھر فرمایا کہ غربت ہو جائے تو صدقہ دے کر اللہ سے تجارت کرو۔ غربت میں بھی دینے کا حکم دیا گیا۔ خود کما کر کھانے کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ایک واقعہ سبھی کی یادداشت میں ہو گا کہ ایک غریب صحابی نبی پاکﷺ کے پاس آ کرتنگی حالات اور غربت کا شکوہ کرتے ہیں۔ نبی رحمتؐ فرماتے ہیں کہ تمہارے پاس اسباب میں کیا ہے۔ صحابی جواب دیتے ہیں ایک کمبل، کائنات کے سب سے عظیم معیشت دان نے فرمایا۔ اس کمبل کو بیچ کر ایک کلہاڑا اور رسی خریدو۔ جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹو اور پھر ان کو فروخت کرو۔ یہ ہے وہ روشن راستہ جو دنیا کے سب سے بڑے معاشی ماہر رسول اکرمؐ نے ہمیں سکھایا اور دکھایا۔ یعنی خود انحصاری، خود کفالت، عزت نفس کے ساتھ جینے کا ہنر، محنت اور مشقت اور کام کر کے کھانے میں آتا ہے۔ اسی لیے محنت کش کو اللہ کا دوست کہا گیا، سبحان اللہ لنگر خانے محتاجوں، معذوروں کے لیے تو قابل قبول ہیں لیکن پوری قوم کو محتاج اور معذور بنا کر لنگروں کی قطاروں میں کھڑا کر دینا کسی ظلم سے کم نہیں۔ ایسی ریاست مدینہ بنانے کا تصور پرلے درجے کی خام خیالی ہے۔ ریاست مدینہ کا ایک ہی فلسفہ تھا اور وہ یہ کہ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے‘‘ جگہ جگہ لنگر خانے کھولنے کی بجائے لوگوں کو قرضِ حسنہ دیں۔ وہ چھوٹے کاروبار کریں۔ قوم کو محتاج نہ بنائیں۔ خود کفیل بنائیں! ایسا نہ ہو کر لنگروں سے ملنے والا آب و دانہ کھا کھا کر پرندوں کو خیالِ بال و پر ہی بھول جائے۔