یہ بات سچ ہے کہ نیک مقصد میں انسان کو کامیابی ملتی ہے اور اللہ بھی مدد کرتا ہے۔قائد اعظم کا مقصد مسلمانوں کے لئے ایسی آزاد ریاست قائم کرنا تھا،جہاں نہ صرف مسلمان بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ برصغیر میں تین بڑی قوتوں کے مابین جدل چل رہا تھا۔ انگریز،ہندو اور مسلمان۔ہر کوئی اپنے مفاد اور بقا کی جدوجہد کر رہا تھا۔ انگریز اپنا سامراجی مفاد بچانا چاہتے تھے۔ ہندو انگریز کی بنائی ہوئی مضبوط مرکزی حکومت پر قبضہ کرکے پورے ہندوستان پر حکومت کرنا چاہتے تھے۔ جس میں مسلمان خود کو غیر محفوظ سمجھتے تھے اور اس مقصد کے لئے قائداعظم ایک منزل کی طرف نکل پڑے۔ یوں 14اگست 1947ء کو مسلمانوں کو آزاد مملکت دینے میں کامیاب ٹھہرے،جہاں آج ہم صرف اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پس منظر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ذرا سوچئے اور سمجھئے ! کہ پی ڈی ایم کا مقصد تھاکیا۔ اس حکومت کو گھر بھیجنا،تو اس کا جواب ہے ’’نہیں‘‘۔استعفے دینا۔ تو اس کا بھی جواب بھی نفی میں ہے۔بزدار حکومت کو گھر بھیجنا تو سرے سے فہرست میں شامل ہی نہیں تھا۔ تو پھر کیا مقصد تھا۔دو دن پہلے اے این پی نے پی ڈی ایم چھوڑتے ہوئے واضح کیا کہ کچھ لوگ ذاتی مفادات اور مقاصد کے لئے پی ڈی ایم کو استعمال کر رہے تھے۔ اے این پی والوںکو چاہئے تھا کہ یہ بھی بتا کر عوا م پر احسان کر دیتے کہ کون تھا جس نے ذاتی مفاد کے لئے پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم استعمال کیا ۔ کہیںبلاول بھٹو زرداری تو نہیں جوبا آواز بلند کہہ چکے ہیں کہ جن جماعتوں نے گیلانی کو نااہل کیا آج انہی کے ووٹوں سے سینیٹر بنوایا ،کہیں وہ بلاول بھٹو زرداری تو نہیں جنہوں نے گیلانی صاحب کو اپوزیشن لیڈر بھی بنوا لیا اور اپنی بڑی بہن مریم نواز کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے اور مریم بہن کو پتہ ہی نہیں چلا۔ افسوس ہوا۔ بہت افسوس ہوا،لیکن زیادہ افسوس اس بات پر ہوا۔ کہ بلاول بھٹو صاحب اگر آپ نے گیلانی صاحب کو سینیٹر بنوانے کے لئے پی ڈی ایم پلیٹ فارم چالاکی سے استعمال کر ہی لیا تو اس فریب اور چالاکی کو عوام کے سامنے لا کر آپ کیا بتانا چاہ رہے ہیں کہ سیاست، مکاری، چالاکی اور دھوکے بازی کے بغیرنہیں ہو سکتی۔ آپ نوجوان نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ رہی بات استعفوں اور تحریک عدم اعتماد کی،تو پیپلز پارٹی استعفے نہیں دینا چاہتی۔وہ سندھ حکومت نہیں چھوڑنا چاہتے۔چئیرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے میں پیپلز پارٹی کبھی حصہ نہیں بنے گی۔جنہوں نے ووٹ دیے۔ اب ان کے خلاف کیسے جایا جاسکتا ہے۔اب رہی بات پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کی تو ن لیگ کو بالکل سوٹ نہیں کرتا۔ وہ بزدار صاحب کی کارکردگی کو جواز بنا کر ہی تو 2023ء کے الیکشن میں عوام کی عدالت میں جانا چاہتے ہیں، ثابت یہ ہوا کہ پی ڈی ایم کی چھتری تلے اکٹھے ہونے کا مقصد نیک نہیں تھا !لہذاٰ ! اے این پی کی علیحدگی کا مطلب یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی دیوار گرنا شروع ہو گئی ہے۔ اور پوری دیوار پیپلز پارٹی کے دھکے سے کبھی بھی گرسکتی ہے۔ لہذاٰ پی ڈی ایم کا مقصد عام عوام کے لئے جدو جہد نہیں تھا، اسی لئے کامیابی ان کامقدر نہیں بنی۔ اب ذرا اس حکومت کے مقاصد پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ، کرپشن کرنے والوں کا احتساب، بڑی بڑی پریس کانفرنسز کر کے اپوزیشن کو چور،ڈاکو کہہ کر عوا م کے دلوں میں جگہ بنا نا یہ مقصد ہے اس حکومت کا ؟ مہنگائی کا کیا ہے؟ یہ سب تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کا کرشمہ ہے بقول وزیر اعظم کے یہی تو لوگ ہیں جو ملکی معیشت کا بیڑاغرق کر کے گئے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم صاحب نے اپنی معاشی ٹیم میں وہی لوگ شامل ہیں ۔حفیظ شیخ ،شوکت ترین ماضی میں کن جماعتوں کا حصہ تھے۔وقار مسعود جو اسحاق ڈار کے فنانس سیکرٹری تھے ، آج وہ آپ کی ٹیم کا حصہ ہیں۔ آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ جن چوروں ،ڈاکوؤں نے ماضی میں معیشت کا بیڑا غرق کیا وہ اب بیڑا پار کریں گے؟ حکومت کو پی ڈی ایم کی ناکامی پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ 2023ء کے انتخابات میں آپ کو ووٹ پی ڈی ایم کی ناکامی کا نہیں آپ کی کارکردگی کا پڑنا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بزدار صاحب کی کارکردگی سے پی ٹی آئی کی کشتی ڈوب جائے، جس وزیراعلیٰ کو یہ نہ پتہ ہو کہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے، ایسے وزیراعلیٰ سے کیا توقع ہے ؟ تو ذرا سوچ لیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب اگر ‘‘ع’’ سے ہی ہونا ضروری ہے ۔تو اِدھر اْ دھر نظر دوڑائیں شاید کوئی اور قابل شخص نظر آجائے ! آپ پاکستان اور پاکستان کے عوام کے لئے جو خواب دیکھ رہے ہیں۔جس بلندی پر پاکستان کو دیکھنا چاہتے ہیں، یہ تبھی پورا ہو سکے گا جب آپ کے ساتھ ایک قابل ٹیم ہو گی ،جس کے دعوے آپ کیا کرتے تھے۔ بار بار ٹیم بدلنے سے کارکردگی تو شاید بہتر نہ ہو۔ہاں البتہ آنیوں جانیوں میں مزیدا ڈھائی سال ایسے ہی گزر جائیں گے۔ جس طرح اپوزیشن آپ کو گھر بھیجتے بھیجتے اپنے گھروں کو لوٹ گئی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ صرف اپوزیشن کو جیلوں میں بند کرنے کے خواب دیکھتے دیکھتے، آپ کو بھی 2023ء میں گھر ہی نہ جانا پڑ ے اور جس طرح پی ڈی ایم کے بارے میں کہا جارہا ہے ‘‘کہ لوٹ کے بدھو گھر کو آئے’’ تو کل کو کہیں یہ آپ کے لئے بھی لکھنا نہ پڑ جائے !