اگلے دن دبئی کے بُرجمان میٹرو سٹیشن کے قریب پاکستان کے قونصلیٹ میںوائس قونصل سلیم سلطان سے ملاقات طے تھی۔ قونصل خانے میں دبئی میں مقیم پاکستانیوں کے لئے نادرا شناختی کارڈ بنانے کا انتظام ہے۔ وہاں بہت رش نظر آیا۔استقبالیہ سے ہو کر مغرب کی سمت چلیں تو وہاں پاسپورٹ کے امور کا شعبہ ہے۔بنچوں پر لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ایک جگہ مجھے ایک جانی پہچانی صورت والے نوجوان نے رک کر سلام کیا۔وہ کچھ دیر حال احوال پوچھتا رہا ۔ممکن ہے کالم کا قاری ہو یا پھر فیس بک فرینڈ۔یہاں سے ایک دروازہ اندرونی حصے کی طرف لے جاتا ہے۔ یہاں دوسرا استقبالیہ ہے۔سلیم سلطان صاحب کا بتایا تو کاونٹر پر موجود نوجوان ان کے کمرے کے سامنے چھوڑ گیا۔ سلیم سلطان پہلی نظر میں پشتون نظر آئے۔ پھر لگا بلوچی ہیں‘ انہوں نے بعد میں بتایا کہ جہلم کے پاس ایک گاوں سے تعلق ہے۔ خوشگوار حیرت ہوئی جب انہوں نے گفتگو کے دوران نا صرف اپنی مادری زبان پنجابی برتی بلکہ پاکستان کی تمام بڑی زبانوں اور لہجوں میں بات کی۔ سلیم سلطان ایف آئی اے میں رہے ہیں۔ ان کا مشاہدہ اور انتظامی تجربہ قابل داد ہے۔ان سے ملاقات کا مقصد یو اے ای، خصوصاً دبئی میں آنے والے پاکستانیوں کے مسائل اور ان مسائل کو حل کرنے میں قونصلیٹ کی صلاحیت کا اندازہ کرنا تھا۔ہمیں بتایا گیا کہ دبئی کی جیل میں 6000پاکستانی قید ہیں جن میں سے زیادہ تر پرمنشیات کے کیس ہیں جس کی یو اے ای کے قانون میں کوئی معافی نہیں ہے۔ اس میں عمر قید یا سزائے موت ہو سکتی ہے ۔دبئی حکومت نے 600پاکستانیوں کو بھیک مانگنے کے جرم میں گرفتار کیا۔یہ بھکاری شلوار قمیص میں گداگری کرتے ہیں اس لئے پاکستان کا تشخص بری طرح مجروح ہو رہا ہے۔ان لوگوں کی وجہ سے عام پاکستانی کو ویزا کے حصول میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لوگ شلوار قمیص پہن کر باہر جانے سے گریز کرتے ہیں۔ سرمد خان کی تجویز ہے کہ ایف آئی اے ان ایجنٹوں اور گروہوں کے خلاف پاکستان میں کارروائی کرے جو لوگوں کو بھیک مانگنے کی غرض سے یو اے ای بھیجتے ہیں۔ان لوگوں کے پاسپورٹ تاحیات بین ہونے چاہئیں اور ان کے کوائف متعلقہ تھانے میں درج ہونے چاہئیں۔، ان کی تصاویر اخبارات میں شائع کی جائیں۔ زیادہ تر پاکستانی شہری منشیات رکھنے‘ استعمال کرنے یا سمگل کرنے کے جرم میں پکڑے جاتے ہیں۔ کئی ایسے قیدی ہیں جو برسہا برس سے یہاں قید ہیں۔ان کے غریب گھر والے ملاقات کے لئے یہاں آ نہیں سکتے۔ بہت سے قید پوری ہونے کے بعد معمولی جرمانہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے اضافی مدت گزارتے ہیں۔قونصلیٹ کے محدود وسائل اور اختیارات ہوتے ہیں۔ مقامی قانون کی پابندی ضروری ہے۔یہاں سفارش‘ رشوت نہیں چلتی۔ ہاں کوئی اہم شخصیت دبئی کی حکومت سے جب پاکستانی قیدیوں کی رہائی کی اپیل کرتی ہے تو وہ قیدی چھوڑ دیے جاتے ہیں جو مدت پوری کر چکے یا جن کی مدت سزا پوری ہونے والی ہوتی ہے۔یہ یہاں کے نظام انصاف و سزا کی خوبی ہے کہ لوگ جرم کرنے سے ڈرتے ہیں۔کئی بار قونصل خانہ غریب قیدیوں کے جرمانے کی ادائیگی کے لئے مقامی پاکستانیوں کی ایسوسی ایشن کے تعاون سے کردار ادا کرتا ہے۔ ہم نے ان کی توجہ دلائی کہ جو لوگ لمبی سزا کاٹتے ہیں اور پچیس سال یا اس سے زیادہ جیل میں رہنا پڑتا ہے انہیں پاکستان کیوں نہیں بھیج دیا جاتا۔یہ سوال پاکستان ایسوسی ایشن دبئی نے ہمیں سجھایا تھا۔ سلیم سلطان نے بتایا کہ دونوں ملکوں میں قیدیوں کے تبادلے کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں۔حکومت پاکستان اگر کوشش کرے تو شائد یہ ممکن ہو سکے۔ سلیم سلطان نے کئی دلچسپ واقعات سنائے۔ایک بار ان کا بیٹا دبئی کے بازار سے گزر رہا تھا۔کسی پاکستانی نے اسے روکا اور پوچھا کہ وہ عینک کا استعمال کب سے کر رہا ہے۔بیٹے نے بتایا:کئی برسوں سے۔اس پاکستانی نے کہا کہ پہلے وہ بھی چشمہ استعمال کرتا تھا پھر کسی نیک بندے نے بلا معاوضہ اسے جڑی بوٹیوں کا نسخہ بتایا اور چشمہ سے نجات مل گئی۔ بیٹے کی دلچسپی دیکھ کر وہ اسے قریبی پنسار دکان پر لے گیا۔دو تین بوٹیاں لیں‘ کچھ دستیاب نہ تھیں۔ ایک اور پنساری کے پاس پہنچے اور باقی بوٹیاں وہاں سے خرید لیں۔ادائیگی کریڈٹ کارڈ سے ہوئی۔بیٹا گھر آیا اور سارا ماجرا سنایا سلیم سلطان بتاتے ہیں کہ انہوں نے اکاونٹ چیک کیا تو 500درہم کی بجائے 500یورو کٹے ہوئے تھے۔بیٹے کو ساتھ بٹھایا اور پنسار سٹور والے کو کھینچا۔ دو گھنٹے بعد وہ رقم لے کر آ گیا اور اعتراف کیا کہ وہ راہگیر نما نوسر باز اور پنسار سٹور والے ملے ہوئے ہیں۔ منشیات کی کہانیاں عجیب ہیں۔کئی بار کوئی واقف کار کسی سادہ لوح کو ایسی چیز دبئی میں اپنے بیٹے‘ باپ یا دوست کے لئے تھما دیتا ہے جس میں منشیات چھپائی گئی ہوتی ہیں۔اسی طرح بعض لوگ دبئی کے سخت قوانین سے لاعلم ہوتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ ان کے جرم پر کس قدر سخت سزا مل سکتی ہے۔ دبئی میں پاکستانی ورکر بھٹو صاحب کے دور سے آنے لگے۔کئی محنت مزدوری کر کے بڑے کاروبار کے مالک بن گئے لیکن پاکستان سے مسلسل آنے والے لوگوں نے تربیت اور جدید ہنر سے پہلو تہی کی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سخت حالات میں کام کرنا پڑتا ہے جبکہ بھارت سے تربیت یافتہ افرادی قوت آ رہی ہے۔ یہ بھارتی نوجوان صحت‘ تعلیم‘ فنانس‘ آئی ٹی اور اعلیٰ انتظامی عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ سلیم سلطان صاحب نے بتایا کہ قونصل جنرل دفتر میں موجود نہیں اس لئے ان سے ملاقات کا انتظام اگلے دن ہو سکتا ہے۔ گاڑی کی پارکنگ کچھ دور بھارتی قونصل خانے کے سامنے تھی۔دبئی میں پاکستانیوں کی نسبت بھارتی دوگنا ہیں لیکن ان کے قونصل خانے کے باہر صرف ایک برقعہ پوش خاتون نظر آئی۔ پانچ چھ لوگ پارکنگ میں اپنی گاڑیوں میں بیٹھنے کو تیار تھے۔ جانے ان کے لوگوں کو کوئی مسائل نہیں تھے یا ان کی حکومت نے ایسے مسائل چھوڑے ہی نہیں ہیں کہ وہ بار بار قونصل خانے کے چکر لگائیں۔ دبئی کی سڑکوں پر کچھ دیر گاڑی دوڑانے کے بعد ہم اپارٹمنٹ آ گئے۔باقی کے اوقات میں کوئی مصروفیت نہ تھی۔عمران خان کی گرفتاری کی اطلاع سوشل میڈیا پر ملی۔تھوڑی دیر پاکستانی نیوز چینلوں کی سرفنگ کی اور ٹی وی بند کر دیا۔ ملک کی حالت پر ہم سب کڑھ رہے تھے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔(جاری ہے)