اسلام آباد سے روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق ماضی کی حکومتوں کی عدم توجہی کے باعث پاکستان ریلویز کی لوکو موٹو فیکٹری اپنی افادیت کھونے لگی ہے۔ 1993ء میں قائم ہونے والی اس فیکٹری نے 21سال کے دوران صرف 102انجن تیار کئے ہیں جبکہ اس عرصہ کے دوران فیکٹری میں 489انجن تیار ہونے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے جس کارآمد محکمے کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ یہی ریلوے ہے‘ ایوب خان کے دورحکومت تک ریلوے انتہائی فعال اور ریونیو کمانے والا ادارہ تھا لیکن بعدازاں کرپشن اور اقربا پروری نے ریلوے کو خسارے میں چلنے والا ادارہ بنا کر رکھ دیا۔ موجودہ حکومت اور محکمہ ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشیدکے لئے ریلوے کی بحالی اور اس کے انجنوں کا معاملہ ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ جب تک معیاری اور مطلوبہ تعداد میں انجن تیار نہیں ہونگے ‘ ریل کا پہیہ سرعت سے چلانا ممکن نہیں۔ سابق حکومت کے دور میں دوران سفر ٹرینوں کے انجن فیل ہونے کے واقعات عام تھے‘ لہٰذا حکومت کو لوکو موٹو فیکٹری کی جانب خصوصی توجہ دینا ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ اس معاملے کی تحقیقات بھی ہونی چاہیے کہ آخر 21سال کے دوران انجنوں کی مطلوبہ تعداد کیوں تیار نہیں ہو سکی۔ اس غفلت اور نااہلی کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اور مستقبل میں انجن سازی کی طرف خصوصی توجہ مبذول کی جائے تاکہ ہمیں ماضی کی طرح غیر ممالک سے ریلوے انجن درآمد نہ کرنا پڑیں جن کی کارکردگی پر بعدازاں بہت سے سوال اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔