اہل تدبیر کی درماندگیاں آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں ایک رویہ ہے جو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے الگ الگ شکل میں اختیار کر رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی سب کے لئے قابل قبول ہونے کا تاثر دیتی ہے‘مکالمے‘ آئین کی بالادستی ‘ پارلیمنٹ کے احترام اور جمہوری روایات کی پابندی کی بات کرتی ہے‘ پارٹی میں ابھی ایسے دانشور سیاسی رہنما موجود ہیں جو حالات کا فلسفیانہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جو پارٹی کبھی دانشوروں سے بھری تھی اب وہاں اعتزاز احسن‘ تاج حیدر‘ واجد شمس الحسن ،شیری رحمان‘ فرحت اللہ بابر ‘ قمر الزمان کائرہ اور چودھری منظور کے سوا کوئی قابل ذکر رہنما نظر نہیں آتا۔ یہ لوگ غنیمت ہیں‘ دوسری جماعتوں کے پاس اتنے بھی ذی شعور نہیں۔ پیپلز پارٹی کے یہ تمام لوگ سینئر ہو چکے۔ دانشور کو نوجوانوں کی قوت میسر نہ ہو تو اس کے تصورات محض خوبصورت جملے بن کر ہوا میں بکھر جاتے ہیں‘زندگیاں آسودہ نہیں کرتے۔ سندھ کے سوا کہیں جماعت کی پذیرائی نہیں۔سیاسی ذہانت کا شہرہ ہے۔ یہ سچ ہوتا تو پنجاب میں پارٹی ختم کیوں ہوتی۔ سیاسی قیادت کا بنیادی کام پارٹی کو پھیلانا اور مضبوط کرنا ہوتا ہے‘ جب پارٹی ہی کمزور کر دی تو جمہوری عمل میں اپنا حصہ خود بخود کم کر لیا۔ہاں بادشاہت ہو تو ووٹروں کی سکڑتی تعداد کا کوئی غم نہیں۔ مسلم لیگ نون کا رویہ پیپلز پارٹی کے دانشور نے واضح کیا تھا۔’’یہ اختیار میں ہو تو گلے پڑتے ہیں‘مصیبت آ جائے تو پائوں پڑ جاتے ہیں‘‘۔ کس ڈھٹائی سے یوسف رضا گیلانی کے خلاف عدالت اور عدالت سے باہر مہم چلائی، اب ایک دوسرے مخالف کو نیچا دکھانے کے لئے ان کی حمایت ۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ 12مئی2007ء کو کیا ہوا تھا۔ کراچی میں جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس افتخار چودھری اور ان کے حامیوں کے لئے حرکت کرنا مشکل بنا دیا تھا۔ ایک ٹی وی چینل پر ایم کیو ایم کے کارکنوں نے حملہ کر دیا‘شہر میں اسلحہ بردار کھلے عام فائرنگ کر رہے تھے۔ یاد کیجیے ہم سب نے اس کی مذمت کی تھی‘ اس عمل کو برا کہا تھا‘ کیوں برا کہا تھا؟اس لئے کہ یہ تشدد کو فروغ دے رہا تھا۔ اس دن کراچی شہر میں متعدد افراد جمہوریت اور آزادی کے نام پر مارے گئے۔کیا آج ہم اصول بدل دیں؟ پنجاب بھی کراچی بن چکا ہے‘ یہاں بڑے شہروں میں جتنے بدمعاش اور قبضہ مافیا ہیں ان کی اکثریت سے جڑ چکی ۔ جنہوں نے ساری زندگی جرائم کی سرپرستی کی اور خود نیک نام بنے رہے‘ ایک سے ایک بڑھ کر صاحب گفتار پڑا ہے یہاں جس نے تازہ نمونہ دیکھنا ہو اسے روحیل اصغر کی ویڈیو سے ضرور فیض مل سکتا ہے‘کوئی پنجاب اور اسلام آباد میں دنگے کرانا چاہتا ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے اعتماد کا ووٹ مسلم لیگ ن کے لئے ناقابل برداشت اذیت معلوم ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکن اپنے بچوں اور خواتین کے ساتھ پارلیمنٹ ہائوس پہنچ رہے تھے۔ اس موقع پر تیل اور دیا سلائی لے کر پارلیمنٹ کے سامنے جانے کی کیا ضرورت تھی۔تحریک انصاف اور اس کی قیادت پر تنقید ہو سکتی ہے۔ ہزاروں پہلو ہوں گے جہاں خرابی ہے لیکن جمہوریت اہل پاکستان کا اثاثہ ہے‘ جنہوں نے ایوب خان کے خلاف تحریک چلائی‘ جنہوں نے ضیائی آمریت کو بھگتا اور جنہوں نے پرویز مشرف کے دور میں جدوجہد کی وہ سب جمہوریت چاہتے تھے‘ ہمارے ہاں جمہوریت کے نام پر تھوہرکے جنگل اگ آئے ہیں‘ گالیوں اور دھمکیوں سے بات کرنے والے لیڈر بن گئے ہیں‘ بدعنوانی کا دفاع کرنے والے رہنمائی کے دعویدار ہیں۔ پیشرفت ہوئی ہے ۔کچھ اداروں نے ان سرکاری افسران کو دوبئی سے لندن بھیجی گئی رقوم کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے‘ معلوم ہو رہا ہے کہ نواز شریف کے ایک سابق پرنسپل سیکرٹری دو ماہ 6دن پہلے لندن گئے تھے‘ اس دوران ان کا نواز شریف سے رابطہ ہوا۔ ان صاحب کے قریبی عزیز موجودہ معاملات میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ ن نے سینٹ انتخابات سے پہلے فیلڈنگ سیٹ کی تھی۔ میڈیا‘ بیورو کریسی اور کچھ توڑ پھوڑ گروپوں کے ذمے ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔یہ لوگ سرگرم ہو چکے ہیں۔ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ فیصلہ کرنے والے یا تو حکومت کو چلتا کر دیں یا پھر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مطالبات مان لیں‘ یعنی این آر او۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی پیشقدمی اور مسلم لیگ نون کی اشتعال انگیزی سے بیک وقت نمٹنا مشکل کام ہے‘ ناممکن نہیں۔ لندن میں رقوم والے معاملے کی گرہیں کھل گئیں تو کم از کم مسلم لیگ نون کے اثاثے ضرور عیاں ہو جائیں گے‘ ساتھ میں وہ ریکٹ بھی پکڑا جا سکتا ہے جو بحران پیدا کرنے کے لئے فیلڈنگ کھڑی کرتا ہے۔ واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب یاد تھیں جتنی دعائیں حرف درباں ہو گئیں سماج اور وقت ایک جگہ نہیں رکتے‘ سماج نے تیسری قوت کو پہلی دو جماعتوں کے سامنے کھڑا کیا۔اب گیارہ جماعتیں مل کر ایک کو گرانے کی فکر میں ہیں۔طاقتور کون ہوا؟تحریک انصاف نے اچھا کیا کہ تحمل کا مظاہرہ کیا۔ وزیر اعظم نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے۔ وہ اس وقت تک اپنے عہدے پر رہ سکتے ہیں جب تک قومی اسمبلی کے اکثریتی اراکین کی انہیں حمایت حاصل ہے۔ آئین یہی کہتا ہے‘ باقی سیاسی باتیں ہیں جن کی کوئی اہمیت ہے نہ کہنے والے کی وقعت۔ میں نے سکول کے زمانے میں مختصر وقت کے لئے باکسنگ کھیلی۔ طاقت کو جائز طور پر استعمال کرنے کا شعور کھیل دیتے ہیں۔ کئی بار ہارنے والے کھلاڑی کھیل کے اصول توڑ کر مقابلے کو لڑائی بنا لیتے۔اکثر اس صورت میں انہیں زیادہ مار پڑتی۔ ہماری سیاست میں ہارے ہوئے کھلاڑی لڑائی پر اتر آئے ہیں…