ہمارے بچپن بلکہ یوں کہیے کہ ایوب اور یحیٰی خانی ادوار میں روپیہ شاید چونسٹھ پیسے کا ہوتا تھا۔سب سے چھوٹا یونٹ ایک پیسہ ہوتا تھا۔پیسے کے مستعمل ہونے سے پہلے یہی دام ہوتے تھے۔ایک پیسہ ایک دام۔چونسٹھ داموں سے ایک روپیہ بنتا تھا۔یہ شیر شاہ سوری کے زمانے کی یادگار تھے۔ایک دام تین سو بائیس گرام تانبا ہوتا تھا۔ایک چاندی کا بھی سکہ ہوتا تھا۔ وہی اصل میں روپیہ تھا اس کا وزن ایک سو پچھتر گرام ہوتا تھا۔ اس سے بڑی اشرفی ہوتی تھی جو سونے کی ہوتی تھی۔اس کا وزن ایک سو سڑسٹھ گرام سونا ہوتا تھا۔عید والے دن ہمیں وہی دام ملتے تھے۔اب پوری طرح تو یاد نہیں البتہ اتنا یاد ہے یہ پانچ چھ پیسوں سے زیادہ مقدار نہیں ہوتی تھی۔پہلے ایک ایک ماہ عید کا انتظار کیا جاتا کہ اس دن عیدی ملنی ہے اور عید والے دن یہ پانچ چھ سکے یا درہم یا پیسے ختم ہی نہیں ہوتے تھے۔گائوںمیں جو دکانیں تھیں وہ سب ہندوستان سے آئے لوگوں کی تھیں۔یہاں کے کسی آدمی کی دکان نہیں تھی۔وہاں سے ایک ایک پیسہ خرچ کرتے دوکان سے میٹھی اشیاخریدتے شام تک ایک دو دام بچ ہی جاتے۔اب وہ چھ دام لینا ایک پہاڑ سر کرنے کے برابر تھا۔گھر کے مالی حالات کیسے ہیں ،دوسرے گھروں کے صورت حال کیا ہے ہمیں اس سے غرض نہیں تھی،اور شاید یہ سات آٹھ سال کی عمر میں پتہ بھی نہیں چلتا۔ہم چار بھائی اور ایک بہن بڑی اور ایک سب سے چھوٹی۔بڑی بہن کو کبھی کسی نے عیدی دی ہی نہیں اور چھوٹی کو عیدی مانگنے لینے اور اپنے حق کے ہاتھ پھیلانا بھی نہ آتا تھا۔وہی چھوٹی سب سے زیادہ خوددار اور مالدار ہوئی۔اب وہ اسلام آباد ہوتی ہے ایک ڈاکٹر کی ماں ہے مگر عادتیں وہی معصوم اور بچپن والی۔اس وقت ہم نے اس کو عید لیتے نہیں دیکھا۔ماں کا اس پر حکم بھی خوب چلتا تھا۔باپ سے پیسہ مانگنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔بس ہماری ساری عیدی کی جنگ ماں سے ہوتی۔اس دن ماں کسی ملک کی ملکہ لگتیں، سارے بھائی پیچھے پیچھے اور وہ اپنے کاموں میں مگن۔کبھی کھیر بنا رہی ہیں ،کبھی کسی غریب کو کھانا دے رہی ہیں۔چھوٹی بہن کے لیے کپڑے نکال رہی ہیں اور ہم بھائی بالخصوص چھوٹے دو ان کے پیچھے پیچھے عیدی دیں، عیدی دیں کی رٹ لگاتے۔وہاں سے دام کہاں ملنے تھے۔شہر سے کپڑے آتے تو گائوں کے درزی مجید کے گھر چکر لگنے شروع ہو جاتے۔درزی مجرد آدمی تھا۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے آیا تھا۔کسی زمانے میں قوال تھا،سر کا پکا تھا۔صبح شام چکر کے بعد عید سے دو تین دن قبل کپڑے سل جاتے۔ عید سے کئی دن پہلے نئے کپڑے سل جاتے ان نے کپڑوں کے پہننے کی خوشی کا کوئی حساب ہی نہیں تھا۔جس دن صبح عید ہوتی ساری رات نیند نہ آتی، نہ جانے کب آسمان پر ستاروں کی بکھری تاش غائب ہوتی کب ہم سوتے کچھ پتہ نہ چلتا۔اٹھتے تو گھر خوشیوں سے بھرا ہوتا۔گھر کا کچا صحن ماں جی تہجد کے وقت صاف ستھرا کر دیتی بلکہ سجا دیتی۔اب عید کے دن کا سب سے اہم آئٹم کا آغاز ہونا ہوتا تھا۔ماں جی کا کچن جس کو اس وقت چلہانی کہا جاتا تھا سجا پڑا ہوتا۔وہ چلہانی چھوٹے سے گھر کا ایک چھوٹا سا کونا تھا۔وہاں ایک چولہا ہوتا جو دہک رہا ہوتا۔سب سے پہلے حلوہ تیار کیا جاتا، دیسی گھی اور سوجی کی خوشبو سارے میں پھیلی ہوتی۔کھجی کی بنی کئی رنگوں سے بنی چنگیر میں سرخ خستہ دوہڑھیں گرتی جاتیں ماں جی بتاتی جاتیں کہ یہ دوہڑ فلاں بیٹے کی ہے پھر پلیٹ میں حلوہ دیا جاتا۔ یہ دوہڑیں گھی سے بھری ہوتیں اور حلوے کے ساتھ کھائی جاتیں۔ ماں جی کے سامنے ہم چار بھائی اور ایک بہن گھیرا بنائے بیٹھے ہوتے۔حلوہ سال میں عید بقرعید پر ملتا تھا یا کسی شادی بیاہ کے موقع پر اس کی زیارت ہوتی تھی۔حلوہ ایک نایاب شے تھی۔ اس دن سارے محلے میں حلوہ بنتا ۔ہماری بار کی زبان میں حلوہ پکتا۔اچانک دروازہ کھلتا تو ابا جی گھر میں داخل ہوتے ہر کوئی چپ شاہ بن جاتا۔ جہاں چند لمحے پہلے شور شرابا برپا تھا، اب چپ چاپ کھانا کھایا جا رہا ہے۔ابا جی کے لیے صحن میں خوبصورت چارپائی بچھ جاتی۔ وہ چارپائی پر بیٹھتے تو وہ رنگین تکیہ کی ڈھوہ ٹیک لگا لیتے۔فرشی حقہ سامنے رکھ دیا جاتا اور ملازم قاضی بھائی آگے پیچھے ہوتا رہتا۔گھر میں کسی قسم کی کرسی میز کا تصور نہ تھا۔چارپائی ہی میز تھی چارپائی ہی کرسی۔ عید کی سب سے بڑی سرگرمی ختم ہوتی تو مسجد کا رخ کیا جاتا۔پیش امام کی کسی قسم کی تنخواہ مقرر نہیں تھی البتہ عیدین پر پیش امام کی حسب ِ توفیق خدمت کی جاتی۔ہمارے گائں میں اس وقت دو بڑی مساجد ہوتی تھیں۔ عید پر دونوں مساجد کے مقتدیوں کے درمیان ایک مقابلہ سا ہوتا تھا کہ کس پیش امام کی زیادہ خدمت کی گئی ہے۔اس وقت پیش امام کو عموماً ایک دو ہزار جمع ہو جاتے تھے۔ عید کارڈ بھیجنے کا بھی رواج تھا مگر ہم اپنے ہوم ورک کی کاپی پر عید کے بارے میں شعر لکھتے تھے۔جس کسی دوست سے کوئی شعر سنا اس کو نوٹ کر لیا۔جیسے عید آئی عید آئی زمانے میں میرا دوست گر گیا غسل خانے میں نازک سی انگلی منہ میں دبانا عید مبارک کہنے سے پہلے تھوڑا سا مسکرانا عید کا دن کوہ قاف سے آیا ہوا دن لگتا تھا۔ اس کی چمک دمک ہی اور تھی۔لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ دن کبھی ختم ہو گا۔گائوں میں چھوٹا سا بازار تھا یعنی ایک گلی سی تھی جو گائوں کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک گاوں کو چیرتی باہر نکل جاتی تھی۔اس میں گنتی کی پانچ دوکانیں تھیں۔ان سے میٹھی چیزیں خریدتے اور خوش ہوتے۔وہاں انگریزوں کے زمانے کی ایک سرائے تھی اب بھی اس کی باقیات موجود ہیں۔وہ ہمارے کھیل کا میدان تھا۔شام کو کھیل کے بعد گھر پہنچتے تو وہاں ہو کا عالم ہوتا پتہ چلتا کہ عید گزر گئی ہے۔