پاکستان اور برطانیہ کے مابین جرائم کے خاتمے اور لوٹی دولت واپس لانے کا معاہد طے پا گیا ہے اس سے احتسابی عمل کو تیز کرنے اور مستقبل میں پاکستان سے دولت لوٹ کے باہر لیجانے جیسے جرائم کی روک تھام کرنے میں مدد ملے گی۔ یقینا یہ ایک اہم تاریخی معاہدہ ہے اور اسے نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ پاکستان سے اربوں روپے لوٹ کر برطانیہ‘ سوئٹزر لینڈ سمیت مغرب اور خلیجی ممالک کے بنکوں میں رکھے گئے ہیں۔ اس خطیر قومی خزانے کو ملک میں واپس لانے کے لیے ضروری ہے کہ ان قومی مجرموں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے جیسا کہ وزیر قانون فروغ نسیم نے برطانوی وزیر داخلہ ساجد جاوید کے ساتھ پریس کانفرنس میں واضح کیا ہے کہ یہ معاہدہ کسی ایک فرد کے لیے نہیں بلکہ وسیع پیمانے پر کیا گیا ہے۔ تاہم اب ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان کے ان تمام بڑے بڑے مجرموں کو اس معاہدے کے تحت پاکستان لایا جائے جنہوں نے قومی دولت لوٹ کر غیر ممالک میں اپنی تجوریاں بھر رکھی ہیں اور اسی دولت سے بڑے بڑے محلات اور عمارتیں تعمیر کی ہیں۔ وزیر اطلاعات کا یہ بیان بھی عوام کے لیے تقویت کا باعث ہے کہ اس معاہدہ کے ذریعے حسن نواز‘ حسین نواز اور اسحاق ڈار جیسے بڑے چہروں کو واپس لانا ممکن ہو جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اس معاہدے پر اس کی پوری روح کے مطابق عمل کیا گیا تو اس سے نہ صرف مستقبل میں ملک بڑے ڈاکوئوں اور چوروں سے محفوظ ہو جائے گا بلکہ اس سے منی لانڈرنگ جیسے قبیح فعل کے انسداد کی راہیں بھی ہموار ہو سکیں گی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے معاہدے دیگر ممالک سے بھی کرے جن کے بینکوں میں پاکستان کی دولت لوٹ کر جمع کرائی گئی ہے۔ اگر ان مجرموں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا عمل جاری رہا تو پاکستان جلد منی لانڈرنگ فری ملک بن سکتا ہے اور آئندہ کسی قومی ڈاکو کو ملکی دولت سے کھلواڑ کرنے کی جرأت نہیں ہو سکے گی۔