وزیر اعظم عمران نے نیو یارک میں ایک مکالمے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان اقدامات کا ذکر کیا جو پاکستان منی لانڈرنگ کے خاتمہ کے لئے کر رہاہے۔ انہوں نے بتایا کہ عالمی برادری کو منی لانڈرنگ کے خاتمہ کے لئے مل کر کام کرنا ہو گا۔ پاکستان لوٹی گئی رقوم کی واپسی کے لئے اقدامات کر رہاہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ اگر منی لانڈرنگ نہ ہو تو رقوم کی منتقلی سے اتنے ٹیکس اکٹھے کئے جا سکتے ہیں کہ غربت کے خاتمہ اور ترقی پر پیسہ خرچ کیا جا سکے۔ وزیر اعظم کا اس امر پر اظہار حیرت بجا ہے کہ امیر ممالک اپنے ہاں آف شور کمپنیوں کو کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں اور یہ کمپنیاں بدعنوانی سے اکٹھی کی گئی دولت سے بیرون ملک اثاثے خریدنے میں مدد دیتی ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے یہ خیالات اس لئے بھی اہم ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو اس وقت عالمی مالیاتی ریگولیٹر اداروں کی جانب سے سخت دبائو کا سامنا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے ہر اجلاس میں منی لانڈرنگ اور رقوم کی غیر قانونی منتقلی کے دیگر ذرائع کی روک تھام کے لئے پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کا جائزہ مشن، ایف اے ٹی ایف اور دیگر ادارے اس بات پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں کہ پاکستان سے کسی دہشت گرد قرار دیے شخص یا گروپ کے لئے فنڈز منتقل نہ ہو سکیں اور نہ ہی بیرون ملک سے ایسی کوئی رقم شدت پسندی کے مقاصد کے لئے پاکستان آ سکے۔ بلا شبہ عالمی نظام مثالی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی بنیادی اداروں کے چارٹر انسان دوستی، مساوات اور امن کا مظہر ہیں لیکن اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی اس وقت ہو گئی جب دنیا کے پانچ سب سے طاقتور ملکوں نے سلامتی کونسل بنا کر خود کو ویٹو کے ہتھیار سے لیس کر لیا۔ سپر پاور امریکہ نے خود عراق‘ لیبیا اور شام کے معاملات میں کئی بار اقوام متحدہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کی۔ افغانستان میں عشروں سے جاری یکطرفہ جنگ کو اس وجہ سے ختم نہیں کیا جا رہا کہ امریکی انخلا کے بعد خطے کے دوسرے ممالک افغانستان میں طاقت کا توازن بدلنے کی کوشش کریں گے۔اس خوف نے جنوبی ایشیا کے کچھ دوسرے ممالک کو بھی اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور انہیں خطے کے سٹریٹجک امور میں پسپائی کا دھڑکا لگا ہوا ہے۔ عہد حاضر گولہ بارود کی جگہ معاشی میدان میں لڑائی کو اہمیت دیتا ہے۔ کوئی ملک بین الاقوامی ضابطوں اور قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو اس کے خلاف فوری جنگ کا آغاز نہیں ہوتا بلکہ اس کی طاقت کو کمزوری میں بدلنے کے لئے اقتصادی اور معاشی پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پابندیاں ہمیشہ ان ممالک کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کی گئیں جو موجودہ بین الاقوامی نظام سے بغاوت کرتے ہیں۔ دسمبر 2000ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرار داد نمبر 55/61کے تحت بین الاقوامی نظام کو کرپشن کے اثرات سے بچانے کے لئے ایک عالمی انسداد بدعنوانی دستاویز تیار کرنے کہا۔ جنرل اسمبلی نے سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سے درخواست کی کہ وہ بین الریاستی ماہرین کا ایک گروپ تشکیل دیں جو بدعنوانی کے خلاف قانونی دستاویز ترتیب دے۔ جنوری 2002ء میں جنرل اسمبلی نے بدعنوانی سے نمٹنے کے لئے کنونشن کی درخواست کی جس کا انتظام ایک ایڈہاک کمیٹی کو دیا گیا۔ اس کمیٹی نے بعدازاں انسداد بدعنوانی دستاویز کی تیاری میں بدعنوانی کی ان تمام شکلوں کو شامل کیا جن کا ذکر وزیر اعظم عمران خان نے نیو یارک میں کیا ہے۔ بدعنوانی معاشرے کے استحکام کی دشمن ہے۔ جس معاشرے میں یہ عفریت داخل ہو جائے وہاں کا امن‘ استحکام‘ خوشحالی اور قانون کی بالادستی نابود ہو جاتی ہے۔ کرپشن کے خاتمہ کی ہر وہ کوشش بے سود ثابت ہو گی جس میں بدعنوان افراد سے لوٹی گئی دولت مکمل طور پر بازیاب نہ کروائی جا سکے۔ لوٹی ہوئی رقوم کی بازیابی ہی سے معاشرے میں یہ شعور پنپ سکتا ہے کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں اور ریاست کی نظر میں تمام شہری مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ افریقہ میں قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک اثاثے بنانے والوں سے بازیابی کے لئے یانگا ڈکلیریشن آن دی ریکوری اینڈ ری پیری ایش آف افریقہ ویلتھ بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ پانامہ لیکس میں دنیا کے سینکڑوں خاندانوں اور شخصیات کے بیرون ملک خفیہ اثاثوں کا سراغ ملا۔ پاکستان کے ادارے سیاسی مداخلت کے باعث ریاست کی بجائے بسا اوقات شخصیات سے وفاداری میں زیادہ دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ ان اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی اہلکار ہر بااثر کے مفادات کے محافظ بن جاتے ہیں۔ عالمی اور قومی قوانین میں ایسی ترامیم کی ضرورت ہے جو سرکاری اہلکاروں کے کوڈ آف کنڈکٹ کو صرف ریاست سے وفاداری پر مشتمل رکھے۔ پانامہ لیکس سکینڈل منظر عام پر آنے‘ ملزمان کی گرفتاری اور کچھ شخصیات سے تفتیش اور پھر سزا کے بعد ایسے بہت سے چیلنجز سامنے آئے جو نئی قانون سازی کا تقاضا کرتے ہیں۔ اپوزیشن اور اس کے حامی سرکاری اہلکار اس نظام کو بدلنے کی حمایت نہیں کر سکتے جو عشروں سے ان کو فوائد پہنچا رہا ہے۔ احتساب کا نظام جان بوجھ کر مضحکہ خیز اور خامیوں سے بھر پوررکھا گیا تاکہ قصور وار بااثر افراد کو بے قصور ظاہر کر کے سارا الزام نظام پر عاید کر دیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے جن حقائق کی طرف عالمی برادری کی توجہ مرکوز کرائی وہ ترقی پذیر اور پسماندہ معاشروں کے لئے زیادہ سنگین ہیں۔ کم از کم عمران خان سے امید تاحال برقرار ہے کہ وہ نظام جاتی خامیوں کو فوری دور کرکے قوم کی لوٹی رقوم کی مکمل بازیابی کے لئے سنجیدہ قانون سازی فرمائیں گے۔ رہی عالمی برادری تو وہ اپنے مفادات کے مطابق ترجیحات طے کرتی ہے۔ سردست بھارت کی منڈی جنوبی ایشیا سے متعلق ہر عالمی پالیسی کا رخ متعین کر رہی ہے۔