لکشمی چوک سے رائل پارک داخل ہوں تو دائیں ہاتھ آپ کو ایک قد آور بوسیدہ عمارت نظر آئے گی، یہ کبھی لاہور کا ایک شاندار ہوٹل تھا ’’ ہوٹل برسٹل‘‘ اس ہوٹل کی شان و شوکت کا باہر سے نہیں اندر جا کر پتہ چلتا تھا، ابا جی کے بیسٹ فرینڈ شیخ حمید اللہ اوچ شریف سے نوکروں کی فوج ظفر موج کے ساتھ لاہور آتے تو اکثر اسی ہوٹل میں ٹھہرتے، آدھے نوکر چاچا جی کی چاکری اور آدھے بڑے بڑے پنجروں میں بند ان بٹیروں کی خدمت پر مامور رہتے جو ہمیشہ چاچاجی کے ساتھ آیا کرتے تھے ہوٹل برسٹل کے داخلی دروازے سے چند گز کی دوری پر ایک نوجوان زمین پر بیٹھ کر دال کی ٹکیاں بیچا کرتا تھا، ہم ابا جی کے ساتھ جب بھی اس نوجوان کے سامنے سے گزرتے وہ بڑی زوردار آواز میں سلام کرتا، ابا جی جواب میں کہتے، کہہ حال اے تیرا ٹکی کمار،( نام اس کا جاوید تھا) ’’ٹکی کمار بر وزن دلیپ کمار تھا‘‘ ہمیں ٹکی کمار کا مطلب جاننے کی ضرورت نہ پڑتی کیوں کہ ہم دلیپ کمار کی کی فلمیں پانچ چھ سال کی عمر میں فیملی کے ساتھ دیکھ چکے تھے، فلمی دفاتر کے ملازمین اس ٹکی کمار کے گاہک تھے جو زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے، رنگیلا اور سلطان راہی جیسے کئی ایکسٹراز بھی ہوٹل برسٹل کے تھڑے پر براجمان ہوتے، ٹکی کمار کا سلطان راہی سے گہرا یارانہ تھے، سلطان راہی نہ صرف مفت کھانا کھاتا بلکہ پانچ دس ہاتھ سے بھی لے جاتا، سلطان راہی کو تو ایکسٹرا رولز ملنے لگے تھے لیکن رنگیلا اس وقت تک اشتہاری بورڈ لکھ کر ہی گزارہ کررہا تھا، یہ لوگ راتیں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر سو کر بسر کیا کرتے، ایک اور بھی تھا، ٹکی کمار کے ٹھیلے پر مستقل آنے والا، علاؤالدین کی کاپی کرتا تھا، فلم پھنے خان لگی تو وہ بھی پھنے خان بن گیا، پھنے خان والی ٹوپی۔ پھنے خان جیسی شلوار قمیض، پھنے خان کی چال ڈھال، اور پھنے خان والا ہی انداز گفتگو۔ یہ پھنے خان لائل پور سے آیا تھا، جہانگیر مرغ پلاؤ والوں کا بچہ تھا، نام تھا اس کا طارق جاوید۔ یہ لڑکا بعد میں اسٹیج ڈراموں کا نمبر ون ایکٹر بھی کہلایا،شیبا بٹ سے شادی کی، سال دو سال پہلے ہنستے ہنستے، روتے روتے مر گیا، بڑوں کا بہت احترام کرتا تھا وہ۔ سلطان راہی پتھروں پر چلتے چلتے، فلم انڈسٹری کا سلطان بنا تو وہ اپنے برے وقتوں کے دوستوں کو نہیں بھولا تھا، وہ ٹکی کمار کو اپنی شوٹنگز پر بھی لے جاتا، ایک جانب سلطان راہی کا فلم نگر میں طوطی بول رہا تھا اور دوسری طرف پھنے خان طارق جاوید نے اسٹیج پر جھنڈے گاڑھ دیے تھے، ،ٹکی کمار نے جو بعد میں جاویدحسن کے نام سے مشہور ہوا، ٹکیاں بیچنا چھوڑ دیا اورسلطان راہی والا فلمی اسٹائل بنا کر لکشمی چوک میں کھڑا ہونا شروع کردیا، فل ان پڑھ تھا اور ہر بات میں گالی گلوچ کیا کرتا، اسٹیج ڈراموں میں فحش اور ذومعنی مکالمے ہٹ ہونے لگے تو ٹکی کمار بھی ہٹ ہو گیا، وہ سخی سرور کے کئی ڈراموں کی ریہرسلز کرتے ہوئے ملا، اسے جب بھی دیکھا گندی زبان بولتے ہوئے ہی دیکھا، اس کا طارق جاوید کے ساتھ ایک ڈرامہ۔ بشیرا ان ٹربل۔ بہت چلا، پھر ٹکی کمار نے’’اک دن شیر دا‘‘ کے نام سے ذاتی فلم شروع کردی۔ شیر وہ خود بنا، سلطان راہی نے خود ہی نہیں انجمن اور کئی دوسرے آرٹسٹوں کو بھی اس فلم میں مفت کام کرنے پر رضامند کیا، فلم کتنی بنی؟ لگی یا نہیں لگی اس کا تو پتہ نہیں، ٹکی کمار نے اس کے پوسٹر بہت لگائے۔ اس فلم کا رائٹر ڈائریکٹر بھی وہ خود تھا، حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب بہت سارے دوسرے ہدایت کاروں نے جن میں سنگیتا نمایاں تھی، ٹکی کمار سے اپنی فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھوانا شروع کر دیا۔ اس نے واقعی درجنوں فلمیں لکھیں۔ اور بچی کھچی انڈسٹری کے تابوت میں کیل ٹھونکے، پتہ نہیں اس کی پشت پر کوئی نگینہ خانم تھی یا نہیں؟. پھر ایک دن سلطان راہی قتل ہو گیا، اس کی زیر تکمیل فلموں کو مکمل کرایا ٹکی کمار اور سلطان راہی کے ایک اور شاگرد لاڈلا نے۔ دونوں کو راہی کی موت نے بہت چانس دیے۔ مگر وہ راہی کے خلا کو پر نہ کر سکے۔ ڈپلکیٹ، ڈپلی کیٹ ہی رہے۔ ٹکی کمار بھی مر چکا ہے، لاڈلہ گھر سے دیس نکالا ملنے کے بعد سڑکوں پر در بدر رہا، پھر شدید سردیوں کے موسم میں ایک صبح اس کی ٹھٹھری ہوئی لاش میو اسپتال کے باہر ایک بنچ پر ملی، وہ وہاں رات گزارنے گیا تھا یا اسپتال میں داخل ہونے؟ یہ کسی کو پتہ نہ چل سکا۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ بہت سال پرانا واقعہ ہے اخبار فروش یونین کے بانی مولوی حبیب صاحب مرحوم کو مجھ سے کوئی کام تھا،میں نے انہیں دیال سنگھ مینشن والے پریس کلب میں ملاقات کا وقت دے دیا، میں کلب پہنچا تو اس کے پہلے کمرے میں ہارون رشید اور بیدار سرمدی ایک دوسرے سے بہت پرے پرے اور خاموش بیٹھے تھے،میں نے سوچا دو جماعتیے ایک ساتھ اور مکمل سکوت، کچھ تو گڑ بڑ ہے، میں بیدار سرمدی کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا اور ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتے ہوئے ان سے سوال کیا۔۔۔۔ بیدار صاحب ! میں اچھرے میں رہتا ہوں، میرے گھر میں ٹی وی پر اور پروگرام چلتے ہیں اور گلبرگ میں رہنے والے میرے ایک دوست کے گھر اور پروگرام آتے ہیں؟اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ میرا سوال سن کر بیدار سرمدی خاموشی سے کھڑے ہوئے، دروازے کو کنڈی لگائی اور ہارون رشید سے لڑنا شروع کر دیا، وہ ہرگھونسے کے بعد کہہ رہے تھے،،تم نے اب اپنا حمایتی بلوا لیا ہے؟ بعد میںپتہ چلا کہ دونوں جھگڑا کرکے بیٹھے تھے۔ ٭٭٭٭٭ فیس بک اور سوشل میڈیا پر دوستوں کی تعداد ہے کہ کم ہی نہیں ہو رہی۔ فرینڈز کی تعداد جب بھی کم کرنے کی کوشش کرتا ہوں، سارے وہ دوست سلامت ملتے ہیں جن کے بغیر زندگی کٹ نہیں سکتی، اگر کسی غیر فعال دوست کو ڈیلیٹ کرنا چاہوں تو یہ سوچ کر ڈر جاتا ہوں کہ اس کے دل کو ٹھیس پہنچے گی،اب مسئلہ یہ ہے کہ جن دوستوں نے فرینڈ شپ کی درخواستیں بھجوا رکھی ہیں، ان کی تعداد بھی ہزاروں تک جا پہنچی ہے، کئی ماہ کی جدوجہد کے بعددو تین درجن کے قریب بھولے بسرے دوستوں کو فارغ کیا تو اب مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ پانچ ہزار امیدوار دوستوں میں سے کن کا انتخاب کروں ؟ ایک حل آیا میرے دماغ میں کہ صرف خواتین کو اکاموڈیٹ کر لوں اور میل فرینڈز سے کنی کترا لی جائے، اس فیصلے میں بھی کئی قباحتیں ہیں، ایسا کر لیا تو سارے میل فرینڈز میرے خلاف یونین بنا لیں گے احتجاج ہی نہیں بدنام بھی کریں گے اور لوگ ان کی بات مان بھی لیں گے کیونکہ میں پہلے ہی اس معاملے میں خاصا بدنام رہا ہوں، مجھے ایک فلمی صحافی اور نیم کامیڈین ایکٹر اسد جعفری یاد آ رہے ہیں جن کا تعلق کراچی سے تھا، انہوں نے ہیرو بننے کیلئے کسی دوست کے سرمایہ سے ایک فلم بنائی تھی جس کا نام تھا، ’’دل کس کو دوں‘‘اس فلم کی کہانی کچھ یوں تھی کہ ایک رومان پسند آدمی ہر لڑکی کے سامنے اپنا دل ہار جاتا تھا، آہستہ آہستہ اس کی محبوباؤں کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے، محبوبہ ہو یا بیوی ایک نہیں سنبھالی جاتی چہ جائیکہ بہت ساریوںکو چکمہ دیتے رہیں، جب اس ہیرو کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے تو وہ خود اپنی۔جنس تبدیل کراکے لڑکی بن جاتا ہے ۔اچھے دوست دنیا میں جنت ہوتے ہیں،وہ کبھی آپ کو کسی امتحان میں نہیں ڈالتے،آپ کا ایک ہی دوست آپ کے ہزار دشمنوں پر بھاری ہوتا ہے، برے دوست ہمیشہ آپ کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلاش میں رہتے ہیں ان کی سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ جب بھی ملتے ہیں آپ سے سوال در سوال کرتے ہیں،ان کے علم میں آپ کی کوئی خامی آجائے تو وہ اسے آپ کے خلاف ہتھیار بنالیتے ہیں اور اس ہتھیار سے آپ کو زخمی کرتے رہتے ہیں،۔