عمران خان جب وزیراعظم نہیں بنے تھے تو ان کے حامیوں کا عام خیال تھا کہ اگر اُوپر کے عہدہ پر کوئی اچھا ‘ ایماندار آدمی آجائے تو نچلی سطح تک معاملات خود بخود ٹھیک ہوجائیں گے۔ ہمارے ہاں اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ ملک کو اچھی لیڈرشپ مل جائے تو مسائل و مشکلات حل ہوجائیں گے۔ ایک نظریہ ہے کہ بڑے لوگ ہی تاریخ بناتے ہیں۔ اس کامفہوم یہ ہوا کہ عام آدمی کا تاریخ سازی میں کوئی حصّہ نہیں یا بہت کم ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک لیڈر اچھا آجائے تو بیشتر مسائل حل ہوجائیں گے تو درحقیقت ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ سیاسی نظام یا عام لوگوں کے روّیوں اور اقدار کی خاص اہمیت نہیں ۔ اگر یہ نظریہ ٹھیک ہوتا تو عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ملکی حالات میں انقلابی تبدیلی رُونما ہوجاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہُوا۔ عمران خان سے لاکھ اختلاف کریں لیکن وہ مالی طور پر کرپٹ نہیں ۔مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی لیڈر جب حکومت میں تھے تو انہوں نے نئے کاروبار کیے‘ زمینیں خریدیں۔بیرون ممالک جائیدادیںبنائیں۔ برطانیہ میں سرے محل ہو یا ایون فیلڈ اپارٹمینٹس ۔ سندھ اور پنجاب میںزرداری اور شریف خاندان کی شوگر ملیں۔ دودھ اور چکن کے کارخانے۔ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار۔ اربوں روپے کی مبینہ منی لانڈرنگ۔ سب حکومتی اختیارات استعمال کرکے بنائے گئے۔ اس کے برعکس خیبر پختونخواہ میں عمران خان کی پارٹی ساڑھے آٹھ برسوں سے برسرِاقتدار ہے ۔ پنجاب اور وفاق میں ساڑھے تین سال سے حکومت میں ہے۔ اس سارے عرصہ میں عمران خان نے کوئی کاروبار شروع نہیں کیا۔ کوئی کارخانہ نہیں لگایا۔ کوئی نئی جائیداد نہیں خریدی نہ ملک کے اندر نہ ملک سے باہر۔ ان کے بچوں یا قریبی رشتے داروں نے بھی ایسا کوئی کام نہیں کیا۔ لیکن عمران خان کی ایمانداری کا ملک کی مجموعی صورتحال پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ ہر سرکاری ادارہ میں اتنی کرپشن ہے جتنی پہلے تھی۔وزیراعظم عمران خان کو احتساب کے قانون میں ترمیم کرکے سرکا ری افسروں اور کاروباری اداروں کو احتساب کے ادارہ (نیب) کی گرفت سے باہر نکالنا پڑا کیونکہ نیب کی کارروائیوں کے ڈرسے افسروں نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ کاروباری لوگوں نے سرمایہ چھپا لیا تھا۔عام آدمی کو اب بھی حکومتی اداروں سے کام کروانے کے لیے پہلے کی طرح رشوت اور کمیشن دینا پڑتی ہے۔ ملک کا پورا ریاستی‘ قانونی نظام اس طرح کام کرتا ہے کہ یہ کرپشن کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ماضی میں حکومت کا حصہ رہنے والے جن بدنام سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات قائم کیے گئے ان کے فیصلے ملتوی ہوتے گئے اور وہ سردخانہ کی نذر ہوچکے ہیں۔ ایون فیلڈ اپارٹمینٹس میں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو احتساب عدالت سے سزا ملی۔ لیکن ایک ہائی کورٹ نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطل کردی۔ ایک دوسری ہائی کورٹ نے سزا یافتہ نواز شریف کوعلاج کی خاطر ملکی حدود سے باہرجانے کی اجازت دے دی۔ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹیں سچی تھیں یا جھوٹی لیکن نظام نے ان کی مدد کی۔ دو برس پہلے ایک سیاستدان پر منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونے ایسے گھناؤنے جرم کا الزام عائد کیا گیالیکن آج تک اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت شروع نہیں ہوسکی۔ ایک سیاستدان کی منی لانڈرنگ کے واضح ثبوت موجود ہیں لیکن تفتیشی ایجنسیاں مقدمہ عدالت میں چلانے میں لیت و لعل سے کام لیتی ہیں۔ عمران خان بار بار اعلان کرتے ہیں کہ وہ کسی کرپٹ آدمی سے ڈیل نہیں کریں گے‘ اسے این آر او نہیں دیں گے۔ لیکن نظام نے انہیں ڈیل دے دی۔ ملک کا نظام وزیراعظم عمران خان سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے۔ ریاست اور قانون کا نظام وزیراعظم کا منہ چڑا رہا ہے۔ یہ دولت مند لوگوں کو سزا دینے کے لیے نہیں بنا۔ یہ غریب اور بے کس لوگوں کو معمولی جرائم میں سزا دینے کے لیے ہے۔ اس نظام کے اہلکار عام آدمی سے قانون کی آڑ میں رشوت وصول کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ملک کی جیلیں ایسے غریب قیدیوں سے بھری ہوئی ہیں جوہزاروں روپے کے معمولی جرمانے ادا نہیں کرسکتے۔ کوئی عدالت ان کی ضمانت منطور نہیں کرتی۔ نہ ان لوگوں کے پاس مہنگے وکیل کرنے کی رقم ہوتی ہے۔ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کی کوئی سبیل نہیں نکالی جاسکی۔پراسیکییوشن کے محکمہ کو بہتر نہیں بنایا جاسکا۔ تنازعات کا تصفیہ کرنا ریاست کے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ ہمارے ملک میںنظام انصاف کی بدحالی ڈھکی چھپی نہیں لیکن کوئی حکومت اسے بہتر بنانے کی کوشش تک نہیں کرتی۔ ملک کا نظام غریبوں اور سفید پوشوں سے روپیہ کھینچ کر دولت مندوں کو منتقل کرنے کیلیے کام کرتا ہے۔معاشی نظام ہو یا قانونی نظام۔ اس میں عام آدمی کے لیے ریلیف نہیں ہے۔ دولت مندوں کیلیے ہے۔ معاشی وسائل بشمول زرعی زمینیں ‘ بینک کے قرضے مخصوص طبقہ کے قبضہ میں ہیں۔ انتظامیہ‘ سرکاری مشینری جو موجودہ نظام کے ذریعے ہر سال عوام کے ٹیکسوں کے کھربوں روپے اپنی ذاتی جیبوں میں ڈال لیتی ہے۔ اس انتظامیہ سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ موجودہ سسٹم کو تبدیل کرنے دے گی؟ کرپٹ سیاستدانوں‘ سرکاری افسروں اور ٹھیکیداروں کا گٹھ جوڑ ہے ۔ عمران خان ریاستی نظام اور سرکاری مشینری کے آگے بے بس ہوچکے ہیں۔ وہ پولیس میں اصلاحات نہیں کرسکے۔ اسے سیاسی اثر و رسوخ سے پاک نہیں کرواسکے کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ارکانِ اسمبلی ان کے خلاف بغاوت کردیں گے۔ پی ٹی آئی کی معاشی پالیسی لگ بھگ وہی ہے جو اس سے پہلے حکومتوںکی تھی۔عام آدمی پر ٹیکس لگا کر خزانہ بھرو اور آئی ایم ایف سے قرض لو۔ عمران خان بڑے زمینداروں پر ٹیکس نہیں لگاسکے نہ تاجروں سے ٹیکس وصولی بہتر بناسکے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اسمبلیوںمیںبیٹھے بڑے زمیندار کوئی بہانہ بنا کر حکومت سے منحرف ہوجائیں گے۔تاجر ملک گیر ہڑتالیں شروع کرسکتے ہیں۔ اگر حکومت کے اخراجات کم کرنے کی خاطر سرکاری عملہ کی تعداد کو کم کیا جائے گا یاخسارہ میں چلنے والے سرکاری اداروں کو بند کیا جائے تو ہزاروں ملازمین دھرنے دینے لگیں گے۔ حکومت ان احتجاجوں سے ڈرتی ہے۔ملک میںجو نظام چل رہا ہے وہ بہت سخت جان ‘ ایک دیو کی طرح ہے۔ اکیلا لیڈر اس سے نہیں لڑ سکتا۔ اس میں اصلاحات نہیں کرسکتا۔ عمران خان کے تجربہ سے ہم پر واضح ہونا چاہیے کہ مسئلہ صرف لیڈرشپ کا نہیں۔ ایک اچھا لیڈر سب کچھ ٹھیک نہیں کرسکتا۔ عوام کو ریاستی نظام اپنے حق میں تبدیل کرنے کے لیے ایک بڑی تحریک چلانی ہوگی۔ہر گلی محلہ میں سیاسی طور سے باشعور لوگوں کو منظم ہونا پڑے گا ۔ ملک و قوم کے مسائل و مشکلات ایک شخص حل نہیں کرسکتا۔ ہزاروں بیدار ومنظم لوگ مسلسل تحریک چلائیں تو عوام دشمن نظام سے نجات مل سکے گی۔