3 جولائی معروف سیاسی شخصیت ریاض ہاشمی کی برسی کا دن ہے۔ برسی کے حوالے سے اُن کے ساتھ بیتے لمحات یاد آئے۔ یادوں کے حوالے سے عرض کروں کہ ریاض ہاشمی رہتے تو کراچی میں تھے مگر ان کا گھر خانپور تھا ۔ سینما روڈ پر ان کے والد کا کلینک اور کوٹھی تھی ۔ ریاض ہاشمی کی ایک شادی کراچی میں ہوئی تھی ‘ ان کی زوجہ محترمہ اردو سپیکنگ تھی اور ایک شادی بہاولپور ان کے اپنے خاندان سے تھی ‘ اس لحاظ سے بہاولپور بھی ان کا گھر تھا ۔ میں 1974ء میں کراچی میں اپنے استاد محترم مقبول دھریجہ سے کتابت سیکھتا تھا ۔ اس دوران میری ملاقات ریاض ہاشمی صاحب سے نہ ہو سکی ۔ البتہ کراچی میں لوگ بتاتے تھے کہ ریاض ہاشمی صاحب کا آفس سرائیکی کا مرکز ہے ‘ وہ کراچی میں مقیم وسیب کے لوگوں کی قانونی مدد بھی کرتے ہیں اور ان کو سرائیکی صوبے کا درس بھی دیتے ہیں ۔ کراچی سے وسیب آیا اور میری 1975ء میں روزنامہ رہبر بہاولپور میں ملازمت ہوئی ۔ ان دنوں سیٹھ عبید الرحمن کا گھر سرائیکی صوبہ تحریک کا مرکز بنا ہوا تھا۔ میں بھی سرائیکی صوبہ محاذ میں شامل ہو گیا۔ اس دوران سیٹھ عبید الرحمن کے بہت سے دیگر اکابرین سے ملاقاتیں رہتیں ‘ سیٹھ صاحب نے بھی ایک مرتبہ مجھ سے پوچھا آپ ریاض ہاشمی سے ملے ہیں ؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ تو آپ کے شہر کے ہیں ‘ میں آپ کو ملواؤں گا ۔سیٹھ صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ریاض ہاشمی صاحب آج کل لندن گئے ہیں اور وہاں اسٹیٹ انڈیا لائبریری سے سرائیکی صوبے کیلئے تاریخی ریکارڈ حاصل کر رہے ہیں ۔ 1977ء کی بات ہے میں خانپور میں تھا ، ریاض ہاشمی بھی کراچی سے آئے ہوئے تھے۔ بھٹو کے خلاف تحریک چل رہی تھی ، 9 جماعتوں کا اتحاد بھٹو کے خلاف تحریک چلائے ہوئے تھا ، 9 جماعتوں کا انتخابی نشان ہل تھا ، خانپور کے محترم مرید حسین جتوئی جو جماعت اسلامی کے متاثرین میں سے تھے ‘ ایک چھوٹا سا ہل انہوں نے بنوایا ہوا تھا ‘ وہ صبح گھر سے ہل اپنے شانے پر رکھتے اور خانپور شہر کے بازاروں کا چکر لگاتے ہوئے یہ گنگناتے ’’ گنجے کے سر پر ہل چلے گا ، بھٹو کے سر پر ہل چلے گا ‘‘ ۔ محترم مرید حسین جتوئی سینما روڈ سے گزرے تو ریاض ہاشمی نے کہا کہ اس بزرگ کو علم ہی نہیں کہ یہ سب کچھ امریکا کرا رہا ہے، مارشل لا کا خطرہ ہے اور جونہی بھٹو رخصت ہوگا تو پاکستان میں بسنے والی قدیم اور اصل قوموں پر بنگالیوں سے بھی بدتر وقت شروع ہو جائے گا ۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ریاض ہاشمی کی بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوگئی ۔ وہ ایک دور اندیش اور دیدہ ور سیاستدان تھے ، وہ صرف خانپور نہیں پورے وسیب کا فخر تھے ۔ ریاض ہاشمی کے ساتھ بیتے لمحات یاد آتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہم بھی خانپور آ گئے اور ریاض ہاشمی بھی زیادہ وقت کیلئے خانپور آ گئے ۔ ہم نے خانپور میں دھریجہ پرنٹر کے نام سے چھاپہ خانہ قائم کیا اور سرائیکی صوبے کے کام کو مزید بڑھا دیا ۔ ریاض ہاشمی کے والد کی جائیداد پر قبضے ہو چکے تھے ، مزارعین اور ٹھیکیدار مالک بن بیٹھے تھے ‘ ریاض ہاشمی مرحوم نے عدالتوں میں مقدمات قائم کئے ‘ وہ بہت عرصہ خان پور کیس لڑتے رہے مگر ان کی زندگی میں ان کو انصاف نہ مل سکا ۔ وہ دیر سے اٹھتے ، میں ان کیلئے کھانا لے جاتا ۔ ان کا ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ایک ہی ہوتا ۔ خان پور میں ان کا گھر ان کے والد کا قدیمی کلینک تھا۔ ان کے گھر میں ادویات کی بد بو بہت زیادہ تھی ، میں ان سے کہتا کہ کوٹھی تبدیل کریں مجھے تو خطرہ ہے کہ ادویات کی بد بو سے کہیں آپ انا للہ نہ ہو جائیں ، وہ کہتے کوٹھی فروخت کر رہا ہوں مگر کوئی خریدار نہیں ۔ بہت عرصہ بعد یہ کوٹھی سرائیکی موومنٹ کے رہنما میاں سجاد رحمانی نے خریدی۔ ریاض ہاشمی بہت بڑی سیاسی تاریخ تھے ،وہ اکثر مجھے واقعات سناتے ، ایک مرتبہ انہوں نے کہا کہ میں نے بھٹو صاحب کو کہا کہ الحاق کے وقت بہاولپور سے 12 فیصد ملازمتوں کے کوٹے کا وعدہ کیا گیا تھا جس پر عمل نہیں ہوا۔ اس پر بھٹو نے کہا کہ بہاولپور اب پنجاب کے پاس چلا گیا ہے اور مجھے بھی پنجاب نے منتخب کیا ہے ۔تم بہاولپور والوں نے ووٹ نہیں دیئے ۔ سندھ والوں نے بھی مجھے کم ووٹ دیئے کہ 31میں سے میرے حصے میں 14 نشستیں آئیں ۔ اب میں تو پنجاب کا نمائندہ ہوں ، تم لوگ سرائیکی ثقافتی بنیادوں پر تحریک پیدا کرو ، اس سے تمہارے خطے کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔ تحریک اور طاقت کے بغیر صوبہ تو کیا کجھ بھی نہیں ملے گا۔ ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ ریاض ہاشمی وڈیروں ، مخدوموں اور جاگیرداروں پر غصہ نکال رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ انگریزوں کی غلامی کر کے یہ مخدوم اور حسب نسب والے بن گئے ہیں ، ان کے شجرے دیکھو تو اصلیت کا پتہ چل جائے گا۔ میں نے کہا کہ اگر شجرے اصلی ہوں تو پھر ؟ ریاض ہاشمی نے غصے سے میز پر ہاتھ مارا اور کہا کہ اصلی بھی ہوں تو پھر بھی یہ اصلی نہیں کہ ان کا کردار وسیب دشمن ہے۔ مجھے یاد ہے سرائیکی صوبہ محاذ کے اجلاسوں میں شرکت کیلئے ہم بہاولپور جاتے تو اکثر اوقات پہلے احمد پور شرقیہ رکتے ، سیدھے افضل مسعود صاحب ایڈوکیٹ کی سیٹ پر جاتے ۔ افضل مسعود صاحب ہمیں دیکھتے ہی چنے چھولے والے کو اشارہ کرتے ، پلاؤ چنے اور الگ پلیٹ میں زردہ آ جاتا ، پھر چائے آ جاتی ۔ پھر افضل مسعود صاحب ہمارے ساتھ بہاولپور کیلئے چل پڑتے ۔ میں نے دیکھا کہ افضل مسعود صاحب ہمیشہ ریاض ہاشمی کے پاؤں چھو کر ملتے اور بہت زیادہ احترام کرتے ۔ افضل مسعود صاحب پیپلز پارٹی کے اہم عہدے پر تعینات تھے ۔ سیاسی گفتگو کے دوران جب وہ اپنی پارٹی کی وکالت کرتے تو ریاض ہاشمی ان کو سختی سے ٹوکتے اور کہتے کہ یار! ذوالفقار علی بھٹو میرا ذاتی دوست ہے ‘ مگر تم یاد رکھو کہ تم کو یا تو سرائیکی بننا پڑے گا یا پیپلا۔ کوئی بھی شخص دو تربوز ایک ہاتھ پر نہیں اٹھا سکتا اور اگر تم جیسے لوگوں کی وجہ سے سرائیکی تحریک پر یہ الزام آ گیا کہ یہ پیپلز پارٹی کا دم چھلا ہے تو پھر تحریک کو بہت نقصان ہوگا۔ کچھ عرصہ بعد افضل مسعود صاحب نے پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ دیا اور وہ ریاض ہاشمی جنہیں وہ اپنا سیاسی استاد کہتے تھے کے مشورے پر سرائیکی کا کام شروع کر دیا ۔