وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارنے پنجاب کی تاریخ کی پہلی ثقافتی پالیسی کی منظوری دیدی ہے، منظوری کے ساتھ یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ حکومت نے یہ بات تسلیم کی کہ یہ صوبے کی پہلی ثقافتی پالیسی ہے ، اس سلسلے میں عرصہ دراز سے لکھتا آ رہا ہوں میں نے کچھ عرصہ قبل انہی سطور میں لکھا تھا کہ صوبے میں وزارت اطلاعات کے ساتھ ثقافت کی وزارت کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں، اطلاعات کی وزارت الگ ہونی چاہئے کہ اس کے ذمے حکومتی معاملات کی تشہیر اور حکومتوں کی کارکردگی کو اجاگر کرنا شامل ہوتا ہے ، اس کے ساتھ صوبے میں وزیراعلیٰ سے لیکر ضلعی حکومتوں کی کارکردگی کو میڈیا تک پہنچانا وزارت اطلاعات کی ذمہ داریوں میں شامل ہے ، یہ اتنا بڑا کام ہے کہ وزارت ثقافت ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے ۔ ثقافت کی وزارت کو الگ اور خودمختار وزارت بنانا چاہئے ، اس میں ٹور ازم کو بھی شامل کرنا چاہئے کہ غیر ملکی سیاح صرف عمارتیں یا مناظر دیکھنے نہیں آتے ، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جس علاقے میں جائیں ، وہاں کی زبان ، ثقافت کے بارے میںآگاہی حاصل کریں اس کے ساتھ خطے کے رسم و رواج سے بھی جانکاری ان کی سیاحت کا پہلا مقصد ہوتا ہے۔ وسیب محرومی کا شکار ہے ، ثقافتی پالیسی میں وسیب کو مکمل طور پر شامل کیا جائے ، وسیب کے ہنر مندوںاور فنکاروں کی فریاد ساہیوال سے آگے نہیں پہنچ پاتی ، یہ ٹھیک ہے کہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار ثقافت کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں اور سیکرٹری اطلاعات و ثقافت راجہ جہانگیر انور ثقافت اور اس سے وابستہ افراد سے محبت رکھتے ہیں، اس سلسلہ میں انہوں نے بہت سے اقدامات بھی کئے ہیں اور حال ہی میں تعینات ہونے والی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پنجاب آرٹس کونسل محترمہ ثمن رائے بھی کلچر لور ہیں اور اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے ثقافت کے فروغ کیلئے اقدامات کئے ہیں، مگر وسیب میں ان اقدامات کو بھر پور انداز میں شروع کرنے کی ضرورت ہے کہ وسیب ثقافت کا قدیم مرکز ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ اطلاعات و ثقافت کا ایڈیشنل سیکرٹری وسیب میں موجود ہو اور وہ مقامی فنکاروں اور ہنر مندوں کے مسائل حل کرے۔ سرائیکی لوک ادب کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں کلچر کے سارے رنگ زمانہ قدیم سے موجود نظر آتے ہیں ، فنون لطیفہ، دستکاریاں، ڈرامہ فلمز، کہاوتیں ، سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی روایات، مذہبی ، سماجی رسومات ، لوک کہانیاں ، لوک قصے ،شعری و نثری و رومانوی قصے ،بہادری کی داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ادب اور ثقافت کے حوالے سے موسموں کے گیت ، فصلوں کے گیت ، ثقافتی میلے ، تہوار ، بزرگوں کے عرس ، بچوں کے گیت ،کھیل ، بچوں بچیوں کے کھیل ، نوجوانوں بزرگوں کے مشاغل ، پیدائش و موت کی رسمیں عقائد و عبادات لوک تماشے ، لوک تھیٹر، زبان ، بولیاں ، کہاوتیں ، ضرب الامثال ، لباس، کھانے ، عقائد ، رہن سہن یہ سب کچھ ثقافت کا حصہ ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ وسیب میلوں اور لوک کہانیوں کی سرزمین ،آرٹ و کرافٹس اور ادب و زبان کا مستند مرکز ہے، وسیب کا ثقافتی ورثہ عالمی سطح پر سیاحتی سرگرمیوں کا قدیمی مرکز ہے، اسے فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ملتان کاشی گری پوری دنیا میں مشہور ہے، آپ سندھ جائیں یا بلوچستان ، تاریخی عمارتوں پر آپ کو ملتانی کاشی گری کے نقش نظر آئیں گے ، بات صرف پاکستان یا ہندوستان کی نہیں ، ایران ، عراق، شام ، مشرق وسطیٰ ہو یا بلخ بخارا سے کاشغر تک چلے جائیں، آپ کو ملتانی کاشی گری کے رنگ فیروزی اور نیلا نظر آئیں گے، سرائیکی اجرک کے رنگ بھی یہی ہی ہیں ، ان رنگوں اور ان رنگوں کے پھولوں کی تاریخ پانچ ہزار سال ہے، ان رنگوں میں سرائیکی اجرک متعارف کرا کر ہم نے اپنی پانچ ہزار سال کی تاریخ کو زندہ کیا ہے،یہ صرف سرائیکی اجرک ہی نہیں سرائیکی کلچر کاپانچ ہزار سال بعد ایک نیا جنم ہے،سرائیکی اجرک کو دنیا بھر میں پسند کیا گیا ہے ، سرائیکی اجرک کے رنگ دیکھ کر آنکھیں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے ، مگر یہ سب کچھ ہم فقیروں نے اپنی مدد آپ کے تحت کیا ،کسی طرح کی حکومتی سرپرستی حاصل نہیں۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ عرصہ 40سال سے سرائیکی زبان ، ادب اور ثقافت کے فروغ کے لئے کام کر رہا ہوں، اس دوران اپنی مدد آپ کے تحت ملک کے بڑے شہروں سمیت وسیب بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں بڑی ثقافتی تقریبات منعقد کرائی ہیں جبکہ چھوٹی تقریبات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اپنے تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں کہ ثقافتی عمل کے دائرہ کو نچلی سطح تک لانے اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ، صوبائی سطح پر دیکھا جائے تو وزارت اطلاعات کے دفاتر ضلعی سطح پر موجود ہیں مگر ضلعی سطح پر ثقافتی سرگرمیوں کو دیکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے حالانکہ اطلاعات و ثقافت کی وزارت ایک ہی ہے ، اطلاعات کے ضلعی دفاتر سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آرٹس کونسلوں کا دائرہ ضلعی سطح تک وسیع کیا جائے اور تحصیل سطح پر آرٹس کونسلوں کے سب دفاتر ہونے چاہئیں ۔ ثقافتی اعتبار سے سرائیکی خطہ بہت زرخیز ہے اور اس کا مقابلہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کی کسی بھی ثقافت سے کیا جا سکتا ہے ، اس خطے میں سب سے زیادہ فنکار پیدا ہوئے ، انہی فنکاروں کی وجہ سے ہندی زبان میں ایک کہاوت مشہور ہوئی ’’ آگرہ اگر، دلی مگر ، ملتان سب کا پِدر ‘‘ ۔ زمینی سرحدیں اپنی جگہ لیکن ثقافت کی اپنی حدود ہوتی ہیں ، ہر طرح کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ صرف ثقافت کے ذریعے کیا جا سکتا ہے مگر وسیب سے فن اور فنکار ختم ہوتے جا رہے ہیں ، کسی طرح کی کوئی سرپرستی نہیں ہے، البتہ وسیب کے فنکاروں اور گلوکاروں نے اپنی مدد آپ کے تحت فن کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔ مسائل ٹھیکہ داری اور اجارہ داری سے جنم لیتے ہیں ثقافتی اجارہ داری بھی درست نہیں ، کلچر فطرت اور خوبصورتی کا نام ہے ، کوئی بھی غلط عمل کلچر کی بدنامی کا باعث تو ہو سکتا ہے، اسے ثقافتی عمل قرار نہیں دیا جا سکتا، جسم فروشی اور انسانوں کی خرید و فروخت ، ونی ، وٹہ سٹہ ،کالا کالی یا عرب روایات کے مطابق بچیوں کو زندہ درگور کرنا جیسا عمل کلچر کے نام پر دھبہ تو ہو سکتا ہے کلچر نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی مثبت عمل کی آڑ میں کوئی دھندہ کرتا ہے ، اسے ہوس زر کیلئے استعمال کرتا ہے تو یہ اس کا ذاتی قصور ہے، مذہب یا ثقافت کا اس میں کوئی قصور نہیں ۔