آڈٹ حکام نے ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر میں آڈٹ کے دوران بے قاعدگیوں کے 69اعتراضات تیار کئے ہیں اور 27اعتراضات میں 3ارب 5کروڑ روپے کی ریکوری کی سفارش کی ہے۔ ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر کا شمار پاکستان کے سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرنے والے شعبہ میں ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں میں شفافیت اور بدعنوانی کے خاتمہ کا انحصار بھی ڈیجیٹلائزیشن پر ہے۔ اس سے مفر نہیں کہ ریونیو ریکارڈ کمیپوٹرائزیشن اور سرمایہ کی غیر قانونی منتقلی کے حوالے سے ٹیلی کمیونی کیشن کی سہولیات سے استفادہ کرکے شہریوں کو کافی حد تک ریلیف ملاہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ شفافیت میں کلیدی کردار نبھانے والے اس شعبہ میں بدعنوان عناصر جدید ٹیکنالوجی کو کرپشن کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ماضی کے آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کے یونیورسل فنڈ میں 14ارب کی بے ضابطگیوں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 3ارب روپے کے غبن کا انکشاف کیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آڈٹ حکام کی نشان دہی کے بعد حکومت ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے فول پروف اقدامات کرتی مگر بدقسمتی سے حکومتی عدم توجہی کے باعث ایسا نہ ہو سکا اور اب ایک بار پھر 27اعتراضات میں3ارب 5کروڑ ریکوری کی سفارش اور 10ارب سے زائد کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے بہتر ہو گا حکومت بالخصوص چیئرمین نیب جواحتساب سب کے لئے نعرہ کے داعی ہیں وہ کالی بھیڑوں کے خلاف قانون کا شکنجہ کسیں تاکہ ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔