مکرمی !بچے جو کہ ملک کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں،جب حالات سے مجبور ہو کرہسنے کھیلنے کے دنوں میں کام کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں تویقینا اس معاشرے کے لیے ایک المیہ وجود پارہا ہوتا ہے۔ یہ المیہ ہرگزرتے دنوں کے ساتھ زخم کی صورت اختیار کرتا ہے۔پاکستان میں بھی معاشی بدحالی، سہولیات سے محرومی،غربت اور بے روزگاری نے جنم لے رکھا ہے۔ ساری دنیا اس لعنت کا سامنا کر رہی ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں لیکن چائیلڈ لیبر ایک سماج ضرورت بن چکی ہے۔ امیر کے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہونے پر نہ قابو پانے کی وجہ سے اب لوگ کوئی راہ نہیں پاتے کہ وہ شروع سے ہی بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں تا کہ ان کے گھر کا چولھا جل سکے اور ضروریات زندگی پورے ہو سکیں۔ سکول جانے کی عمر میں بچے ہوٹلوں ، دکانوں،بس اڈوں،ورکشاپس اور دیگر ملازمت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسے بچے نہ تو تعلیم حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی اپنا بچپن جی پاتے ہیں۔ قوم کے مستقبل کا ایک بڑا حصہ اپنے بچپن سے محروم ہوجاتا ہے۔ آج تک حکومت نے ٹھوس بنیادوں پر کوئی حکمت عملی مرتب نہیں دی جس سے چائیلڈ لیبر کو روکا جا سکے۔ معاشرے کے کسی اور طبقے کی جانب سے بھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے چائیلڈ لیبر کو اپنے لیے ناگزیر مجبوری تسلیم کرلیا ہے۔ ہمیں اسے روکنا ہوگا۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی دولت میں سے کچھ حصہ غریبوں میں تقسیم کرے اور میری حکومت سے بھی درخواست ہے کہ وہ اس مسلے کو حل کرنے کی کوشش کرے تاکہ ان بچوں کا مستقبل روشن ہو سکے۔ ( فضاامجد‘ کراچی)