پی ٹی آئی کے لوگوں کو اپنے قائد کے بارے میں یہ تعریفی کلمات کہتے ہوئے اکثر سنا کہ یہ ہوتا ہے لیڈر‘ اسے کہتے ہیں وژن۔ گزشتہ روز اس کی ایک اور شہادت سامنے آ گئی اور یوں سامنے آنے والی شہادتوں کی گنتی کوئی چار ہزار سے پھلانگ گئی۔ ایک ایشو کے حوالے سے مظاہرے وغیرہ ہو رہے تھے۔ مرکزی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ایک رہنما نے وزیر اعظم اور اداروں کے بارے میں کچھ ایسے فقرے بھی ارشاد فرما دیے جنہیں کوئی ٹی وی چینل نشر نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ کسی چینل نے ایک فقرہ بھی نشر نہیں کیا۔ اچھی بات ہے لیکن وزیر اعظم نے رات کو پونے آٹھ بجے خطاب فرمایا تو یہ فقرے بھی نشر کر دیے۔ لوگوں کو بجا طور پر تعجب ہوا۔ وزیر اعظم کے ایک مداح اینکر پرسن نے یوں صفائی دی کہ وزیر اعظم نے بھولپن میں یہ سنسر شدہ مواد نشر کر دیا۔ تو صاحبو‘ یہ ہوتا ہے لیڈر اور ایسا ہوتا ہے اس کا وژن۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے عدالتی فیصلے پر احتجاج کرنے والوں کو ’’چھوٹا طبقہ‘‘ قرار دیا۔ وزیر اعظم نے چھوٹا طبقہ کہا ہے تو ماننا ہی ہو گا لیکن پھر ایک سوال پوچھنے کا بنتا ہے۔ اور وہ یہ کہ حضور‘ یہ اتنا ہی چھوٹا طبقہ تھا تو قوم سے ہنگامی خطاب کرنے کی زحمت خود کیوں فرمائی‘ مراد سعید یا کوئی ایسے ہی دوسرے شعلہ بیان یہ خدمت خوشی سے سرانجام دے سکتے تھے۔ ہاں اس میں وہ ایسا ہوتا ہے لیڈر‘ یہ ہوتا ہے وژن والی بات شاید نہ ہوتی۔ ٭٭٭٭٭ بھولے پن والی بات ایک شاہی قصیدہ نگار نے بھی کی ہے۔ ازراہ تنقید ہمدردانہ لکھا ہے کہ لوگ خان اعظم سے غلط کام کروا رہے ہیں۔ قصیدہ نگار نے لکھا ہے کہ حال ہی میں تھوک کے حساب سے ہونے والے اعلیٰ سطحی تبادلے ستر فیصد سفارش کی بنیاد پر کئے گئے۔ اہم عہدیداروں اور ارکان اسمبلی نے من مرضی کے تبادلے کروائے اور یہ سب اس لیے ہے کہ خان صاحب سادہ لوح ہیں۔ لوگ ان کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ اور دوسرے قصیدہ نگار اب تک ہمیں یہ بھی بتاتے رہے ہیں کہ خاں صاحب جیسا مدبر اس سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوا۔ پھر تو حیرت کی بات ہے اور بالکل نئی دریافت کہ مدبر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک سادہ لوح اور دوسرا غیر سادہ لوح۔ نان کی طرح ایک سادہ‘ دوسرا روغنی۔ ایک مثال سگریٹ کی بھی ہے۔ سادہ اور غیر سادہ لیکن سگریٹ کا مدبر سے موازنہ بنتا نہیں‘ ہاں نان مدبر میں موازنہ تھوڑی سی کوشش کر کے کیا جا سکتا ہے۔ تو صاحبو‘ ہمارا لیڈر مدبر بھی ہے اور وژن بھی رکھتا ہے البتہ سادہ لوح ہے اور لوگ اس مدبرانہ سادہ لوحی یا سادہ لوحیانہ مدبری سے فائدہ بھی اٹھا لیتے ہیں چنانچہ محتاط رہنے کی ذمہ داری اب عوام پر ہے۔ ٭٭٭٭٭ اس سادہ لوحیانہ مدبری کی طرف ایک اشارہ تجاوزات کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹ سے بھی ملتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تجاوزات گرانے والی ٹیموں نے ازراہ شرارت صرف غریبوں کے جھگے جھونپڑے اور کوٹھڑے گرائے‘ قبضہ گروپ کی طرف کم ہی آنکھ اٹھا کر دیکھا۔ یاد ہو گا‘ اب تک کی اخباری رپورٹیں یہی تھیں کہ تجاوزات کے خلاف مہم کی نگرانی بذات خود وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کر رہے تھے۔ انہیں یہ چالاکی نظر نہیں آ سکی تو اس کی وجہ بھی یہی لگتی ہے کہ اپنے قائد کی طرح وہ بھی سادہ لوح ہیں۔ یعنی مدبر تو ہیں پر سادہ۔ روغنی نہیں۔ لیکن اخبارات میں تواتر سے یہ چھپتا رہا ہے کہ غریبوں کو بے گھر اور بے روزگار کیا جا رہا ہے‘ تجاوزات کے خلاف مہم کا قبلہ درست نہیں۔ اس کے باجود وزیر اعلیٰ کی وہ ’’ذاتی نگرانی‘‘ بے خبر ہی رہی؟ شاید سادہ لوحی حد سے بڑھ گئی ہو گی۔ واللہ اعلم! ٭٭٭٭٭ تجاوزات کے ذیل میں ایک دلچسپ خبر یہ بھی سامنے آئی کہ رنگ محل میں تین سو سال پرانی مارکیٹ بھی تجاوزات قرار پائی ہے اور اس کے مکینوں ‘ مالکوں کو مسماری کے نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔ تین سو سال پرانے تجاوزات؟ کیوں نہیں۔ تجاوزات آج ہو سکتے ہیں تو ماضی میں بھی ہوتے ہوں گے۔ تین سو سال پہلے خدا جانے کون بادشاہ تھا۔ اس کے دور میں ہونے والی غلطی کا ازالہ اب ہونے جا رہا ہے۔ یعنی تحریک انصاف کی حکومت پچھلے ستر سال نہیں پچھلے تین سو سال کا گند صاف کرنے جا رہی ہے۔ یہ ہوتی ہے لیڈر شپ‘ یہ ہوتا ہے وژن! ٭٭٭٭٭ نواز شریف نے کہا ہے‘ عمران خاں بتائیں کہ ان سے این آر او کس نے مانگا‘ کب مانگا۔ یہ سوال انہوں نے عمران خاں کے اس اعلان پر کیا جس میں خاں صاحب نے فرمایا تھا کہ ان سے این آر او مانگا جا رہا ہے لیکن وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ نواز شریف نئے قانون سے اچھی طرح واقف ہیں۔ پھر بھی ایسے لاجواب سوال کر رہے ہیں۔ نیا قانون جو لگ بھگ ڈیڑھ دو سال سے نافذ ہے‘ یہ ہے کہ جب شریف خاندان پر کوئی الزام لگ جائے تو بار ثبوت پھر شریف خاندان پر ہے۔ الزام لگانے والے پر نہیں۔ چنانچہ اب یہ ثابت کرنا نواز شریف کا کام ہے کہ انہوں نے این آر اونہیں مانگا۔ عمران خاں کا ذمہ تو بیان دیتے ہی اوش پوش ہو گیا تھا۔ بالکل ویسے یہ جیسے خاں صاحب نے الزام لگایا کہ انہیں خاموش رکھنے کے عوض شریفوں نے دس ارب روپے دینے کی پیشکش کی تھی۔ شہباز نے اس پر ہرجانے کا دعوی کر دیا حالانکہ یہ ثابت کرنا ان کا کام تھا کہ انہوں نے ایسی پیشکش نہیں کی نہ کہ خاں صاحب کا۔!