عام انتخابات کو دس روز گزر گئے تاحال مرکز اور صوبوں میں حکومتوں اور حکومتی عہدیداروں کا باضابطہ فیصلہ نہیں ہو سکا ۔اگرچہ خیبر پختونخوا میں 67نشستیں جیت کر تحریک انصاف کو بھاری مینڈیٹ ملا ہے ، وہاں بھی وزیر اعلیٰ کانام حتمی طور پر سامنے نہیں آیا۔ یہ بات تو پکی ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو ان کی خواہش کے برعکس صوبہ نہیں دیا گیا حالانکہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کامیابی ان کے حسن کارکردگی کی بنا پر ہی ہے۔ اس کے باوجود کہ جہانگیر ترین جہاز میں ڈھوڈھو کر ایم این ایز اور ایم پی ایز لا رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ مرکز اورپنجاب دونوں میں تحریک انصاف کے نمبرز ہنوز پورے نہیں ہوئے۔ مسلم لیگ ن عملی طورپر نمبر گیم سے باہر لگتی ہے لہٰذا جلد یا بدیرپی ٹی آئی مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی تاہم اسے بھرپور ہوم ورک اور تیاری کے ساتھ میدان میں اترنا پڑے گا کیونکہ مسلم لیگ(ن) ،پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں کا اپوزیشن اتحادانتہائی تگڑا ہو گا جو حکومت کوٹف ٹائم دے گا۔ عمران خان ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) اورپیپلزپارٹی کی گورننس انتہائی ناقص ہے اور انھوں نے خیبر پختونخوا کو ماڈل صوبے کے طورپر چلایا ،شاید ایساہی ہولیکن مرکز میں حکومت کرنا صوبوںکے مقابلے میں ذرا مختلف اورکٹھن معاملہ ہے۔ 18ویں ترمیم کے تحت سب کچھ صوبوں کے پاس چلا گیا اور مرکز قریباً قلاش ہو کر رہ گیا ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان مشکل حالات میں اپنے دعوؤں کوکس حد تک پورا کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پولیس ریفارمز کی گئیں اور کہا جاتا ہے کہ وہاں کی پولیس کی کارکردگی اور معیار دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہتر ہے، ویسے تویہ صوبائی معاملہ ہے اور اگر پنجاب میں تحریک انصاف حکومت بناتی ہے تو پولیس ریفارمز اس کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ویسے بھی پنجاب میں پولیس کے آوے کا آوا ہی بگڑاہوا ہے، عوام کو سب سے زیادہ شکایات پولیس اورتھانوں سے ہی ہیں۔ میاں شہباز شریف نے پولیس سے خوب کام لیا لیکن اس کا کلچر بدلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔شہبازشریف نے بطور وزیر اعلیٰ1998ء میں ایلیٹ فورس تشکیل دی اور ترکی کی نقل کرتے ہوئے حال ہی میں ختم ہونے والے دور حکومت میں ڈولفن فورس بنائی۔ بجائے اصل مرض کی تشخیص کر کے اس کا مداوا کرنے کے کروڑوں روپے ان فضول منصوبوں پر خرچ کیے گئے ۔ایلیٹ فورس کاکام توصرف ایلیٹ کی حفاظت کرنا ٹھہرا،ڈولفن فورس مہنگی وردیوں اور لگژری موٹر سائیکلوں پر قوم کا پٹرول پھونکتی رہتی ہے۔ شہباز شریف نے اپنے تئیں ایک انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے پولیس کی کئی دہائیوں پرانی سلیٹی یونیفارم کو خاکی وردی میں تبدیل کر دیا۔ ایک سابق آئی جی نے جو اس وقت حاضر سروس تھے مجھے کہا کہ فوج سے ملتی جلتی اس وردی سے صرف کنفیوژن ہی پیدا ہوئی ہے اور حکومت نے اسے پھر بدلنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن تاحال اس پر عمل نہیں ہوا۔ ویسے بھی لباس بدلنے سے خصلت تو نہیں بدلی جا سکتی۔غریب آدمی کا پالا تو پولیس اور پٹواریوں سے ہی پڑتا ہے ۔انھیں استحصال سے بچانے کے لیے عمران خان کوسنجیدگی سے تبدیلی لانا ہو گی ۔اس حوالے سے کئی رپورٹیں حکومتی دفاتر میں طاق نسیان میں پڑی ہیں ان سے بھی استفادہ کرنا ضروری ہے۔ سستا اور بر وقت انصاف عوام کا ایک بہت بڑ امسئلہ ہے۔ کہنے کواعلیٰ عدالتیں چیف جسٹس افتخار محمدچودھری کے دور میں آزاد ہو گئیں اور موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے دور میںعدالتوں نے انتظامی معاملات جن پر حکومتیں توجہ نہیں دے رہی تھیں کی بھی نگرانی شر وع کر دی لیکن نچلی سطح سے لے اوپر تک وہ لیگل ریفارمز جن کی شدت سے ضرورت تھی اس ضمن میں زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکا ۔ پلڈاٹ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان میاںثاقب نثار نے دسمبر 2017ء میں جوڈیشری کے رول کو ایک بابے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جوڈیشری قوم کا بابا ہے اور اس کی ایمانداری اور راست بازی پرشک نہ کیا جائے ،پلڈاٹ کے مطابق ہی اپریل 2018ء تک سپریم کو رٹ کے پاس 38913کیسززیر التوا تھے۔ پلڈاٹ کے مطابق گزشتہ آٹھ برسوں میںزیر التوامقدمات کی شرح میں سو فیصد اضافہ ہوا۔ 2001ء میں سپریم کورٹ کے پاس محض 13270کیسز زیر التوا تھے گویا کہ درمیانی عرصے میں زیر التوا کیسز کی تعداد قریباً تین گنا ہو گئی ہے۔یہ تو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا معاملہ ہے جہاں تک ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ کا تعلق ہے وہاں تو صورتحال الارمنگ ہے۔ عمران خان کو چیف جسٹس آف پاکستان اور وزرات قانون کو آن بورڈ لے کر فوری طور پر اصلاحات کرنی چاہئیں تا کہ عوام کو سستا اور فوری انصاف مل سکے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مقدمہ بازی میں پھنسے سائلوں کی پشتیں وکلا کی فیس ادا کرنے کے لیے قرضوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی ہیں۔ میاں نواز شریف اور شہبازشریف کے دور میں بیوروکریسی کو جس طرح گھر کی باندی بنا کر استعمال کیا گیا،شاید اس کی پہلے کم ہی مثال ملتی ہو۔ شریف برادران نے اپنے من پسند بیوروکریٹس کو عملی طور پر مشیروں کارتبہ دے کر بیوروکریسی کے لیے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کی۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) ،بیوروکریسی کو اپنی ملازمت کا تحفظ اسی صورت نظر آتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی آقاؤں کے آگے کورنش بجا لائے۔ بیوروکریسی بھی خود کو عوام کا خادم سمجھنے کے بجائے انگریز بہادر کی طرح حکمران ہی سمجھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کلچر کو راتوں رات نہیں بدلا جا سکتا لیکن اگر حکومتیں اور پارلیمنٹرین ان پرسیاسی دباؤ ڈالنا چھوڑ دیں تومعاملات صحیح سمت چل سکتے ہیں۔اعلیٰ عہدوں پرسرکاری ملازموں کے بجائے پارٹی کے وفاداروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ گویا ٹیکس دینے والے عوام کا پیسہ بلا واسطہ سیاسی طور پر نوازنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔اس کی ایک مثال بیرون ملک تعیناتیاں ہیں۔ شاہد خاقان عباسی جو خود نواز شریف کی نااہلی کے بعد وزیر اعظم بنے تھے نے جاتے جاتے نسبتاً ایک نا تجربہ کار، نوآموز علی جہانگیر صدیقی کو امریکہ میں سفیر مقرر کر دیا۔ حالانکہ یہ مفادات کا کھلم کھلا ٹکراؤ تھا کہ سابق وزیراعظم کی ایئر لائن میں علی جہانگیر کے والد کی کمپنی بھی حصہ دار ہے۔سفارتی سطح پر اس طرح کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں جہاں منظورنظر افرادکو نوازنے کے لیے باہر بھیج دیا گیا ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی نجی شعبے میں انتہائی ماہرا ور قابل شخص ہو تو اس کو منتخب نہ کیا جائے لیکن ایسا کرنے سے پہلے امریکہ کی طرز پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کی خارجہ کمیٹی سے اس تقرری کی منظوری حاصل کر لینی چاہیے۔اصولی طور پر سیاسی اقربا پروری کی بنا پرمتعین سفیروں کو گھر واپسی کی تیاری کرنی چاہیے لیکن ان میں سے اکثر اپنے عہدوں پر مسلسل چپکے رہنے کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔ متوقع وزیر اعظم کو آئی ایم ایف کے پیکیج پر سودے بازی کرنے کے لیے انتہائی عرق ریزی کرنا ہو گی۔ امریکہ نے تو یہ وارننگ دیکر کر کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا پیکیج چین کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہئے پہلے ہی معاملات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر آئی ایم ایف اپنی سخت شرائط پرقرضہ دینے پر تیار بھی ہوجاتا ہے تو اس کے لیے پی آئی اے، سٹیل ملز اور ان جیسے دیگر سفید ہاتھیوں کی نجکاری ضروری ہو گی۔ عمران خان ایسے فیصلے جن کی وہ بطور اپوزیشن سخت مخالفت کر تے رہے اب کیو نکر اپوزیشن کا تعا و ن حاصل کر سکیں گے۔محاورۃً کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں حکمرانی پھولوں کی سیج نہیں لیکن موجودہ صورتحال میںتو واقعی کانٹے ہی کانٹے ہیں۔