زوال کا کمال ہے۔ آئین نے حکومتوں کے آنے اور جانے کا ایک طریقہ طے کر رکھا ہے۔ یہ ادارے جو ہیں ان کا ہماری تاریخ نے طے کر دیا۔ حیرت بھی ہے اور افسوس بھی کہ اس میں ایک نئی ناخواندہ پخ حق اور باطل بیچ میں گُھس گئی ہے۔ کیا یہ صلیبی جنگ ہے؟ کیا اپوزیشن یہود اور ہنود ہیں؟ کیا پارٹیوں کی ڈکٹیٹر شپ کے ہاں اراکین پارلیمنٹ یرغمال ہیں؟ اگر کسی کو اپنے لیڈر کے کارنامے ، مزاج اور فیصلے پسند نہیں تو وہ کیا کرے؟مزید یہ کہ اس میں ذاتی رنج اور غم ہیں جو ’’آئی‘‘ سپیشلسٹ لیڈر شپ کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ اب غیور ، غریب اور ناخواندہ عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ معرکہ حق و باطل ہے۔ ایک طرف یہود اور ہنود ہیں اور ایک جانب تیرے غازی ، تیرے جانباز چلے آتے ہیں۔ ہم محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، اور صلاح الدین ایوبی ٹھہرے اور تم ؟ چلیں چھوڑیں۔ سچ یہ ہے کہ ہم اس عہد میں جی رہے ہیں نہ سچ ۔۔۔ سچ ہے پورا۔۔۔ نہ جھوٹ۔۔۔ جھوٹ ہے سارا۔ سچ اور جھوٹ کی لکیر دھند لاگئی ہے۔ اس شور میں فیصلہ کون کرے گا؟ ان رستے ہوئے زخموں کی دوا کون کرے گا؟ یقینا سیاستدان اور سیاسی جماعتیں تو ہرگز نہیں۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں اخلاقیات کی ریڑھی ؟ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ۔ پانامہ کے بعد میاں نواز شریف بھی نظریاتی ہوگئے تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آج کل عمران خان حق کی یلغار بن کر ’’باطل ‘‘ کو للکار رہے ہیں۔ اخلاقیات ،سچ اور حق کی کرنسی پاور پلے کے بازار میں؟ بنو اُمیہ، بنو عباس ، خلافت عثمانیہ، سلاطین دہلی اور مغل عہد۔ مزید یہ کہ ایوب خان اور سکندر مرزا میں گہری دوستی تھی۔ بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے۔ ضیاء الحق بطور کور کمانڈر ملتان ۔۔۔ نواب صادق قریشی کی محفل میں بھٹو صاحب سے کیا کہتے تھے؟ وہی جنرل ضیائ۔۔۔۔ میاں نواز شریف کو بیٹا کہتے تھے اور چوہدری پرویز الہٰی ۔۔ باوردی جنرل مشرف کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے تھے۔ 2018 ء میں بھی یہی پاکستان تھا۔۔۔ مگر پاور پلے کے مناظر میں اخلاقیات گھونگٹ میں سر جھکائے سہمی بیٹھی تھی۔ دُکھ کی بات ہے کہ آج پون صدی کے بعد بھی ملک کی منتخب لیڈر شپ یہ دُہائی دے رہی ہے کہ ریاست کو جِن جپھا ملک کی اشرافیہ نے ڈال رکھا ہے۔ حکومت کون چلا رہا ہے؟ آپ۔ اشرافیہ کے پنجوں سے پچانوے فیصد شناختی کارڈ نمبروں کو کون نکال سکتا ہے؟ آپ۔ اگر حکومت اور آپ سب بے بس ہیں تو بار بار انڈے کیوں پھینٹ رہے ہیں ؟ اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے؟ چھوڑ دو حکومت ، باہر آجائو۔ اگر حکومت کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی کمپرومائز ہو جاتاہے۔ بزدار ا ستعفیٰ بھی دے دیتے ہیں۔ عدم اعتماد واپس یا ناکام بھی ہو جاتا ہے تو؟ تو کیا یہ سارا بگاڑ سلجھ جائے گا؟ جو پہلے تھا سیر، اب ہے ، سوا سیر۔ عمران بچنے کی صورت میں جلد الیکشن کا وعدہ بھی کر لیتے اور کچھ اور وعدے بھی تو کیا؟ تب منیر نیازی یاد آجاتے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے بس یونہی اِک اِرادہ کر لیا۔۔۔ اپنے دِل کے شوق کو حد سے زیادہ کر لیا۔۔۔ جانتے تھے دونوں ہم اسکو نبھا سکتے نہیں۔۔۔ اس نے وعدہ کر لیا۔۔۔۔ میں نے بھی وعدہ کر لیا۔ اس ملک میں سیاستدان آتا کہاں سے ہے؟ خدشہ ہے کہ اگر عدلیہ اور فوج نے حل نہ کیا تو یہ بحران حل نہیں ہوگا۔ جنرل قمر باجوہ جب LUMS کے طالب علموں سے مکالمہ کر رہے تھے تو ایک طالب علم کے سوال سے یہ تاثر اُبھرا کہ جیسے سب کچھ اسٹیبلشمنٹ ہی کر رہی ہے۔ جنرل صاحب کا جواب کوزے میں دریا تھا۔ ’’آپ عمران کو جانتے ہی نہیں‘‘۔ کیا بدصورت کلچر اُبھر رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو برے برے ناموں اور القابات سے نواز رہے ہیں۔ یہ وہ سیاست ہے جس میں میرے اور تمہارے کی شدید تقسیم میں عینکوں کے نمبر اور شیشے خراب اور دُھندلے ہو چکے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ پون صدی سے تاریخ بار بار پرانے منظر نئے چہروں اور کرداروں کے ساتھ دہرا رہی ہے۔ یہاں سارے منظر ایک سے ہیں۔۔۔ ساری باتیں ایک سی ۔۔۔ اور ساری جیتیں ایک سی ہیں۔۔۔ ساری ماتیں ایک سی۔ اسٹیبلشمنٹ کا یہ مفروضہ غلط ثابت ہو گیا کہ اگر سسٹم کے ٹاپ پر ایک غیر کرپٹ لیڈر ہوگا تو ٹریکل ڈائون اثر سے اس ایمانداری کا محلول کرپٹ معاشرے میں نیچے تک سرائیت کر جائے گا۔ شاعر کہتا تھا کہ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں۔۔۔ یہ کہتے ہیں ہمیشہ بھول ہو جاتی ہے۔ مردم شناسی لازمی حصہ ہوتی ہے جہاں بانی کا۔ اگر آپ کے ہاتھ طاقت کی مشین کے لیورز پر ہیں تو آپ کو غضب کا مردم شناس ہونا چاہیے۔ محمود خان، عثمان بزدار، اعظم خان اور شہزاد اکبر۔ فیصلہ سازی اور Arrogance کا ذکر پھر سہی۔ یہ جو اپوزیشن ہے، یہ بھان متی کا کنبہ سہی ۔ یہ عدم اعتماد جیت جائیں یا ہار ، بات بنے گی نہیں۔ تو کیا کیا جائے؟ اسٹیبلشمنٹ کو ہی کچھ کرنا چاہیے۔ اس سیاسی بھرتی میں کچھ چھانٹی کریں۔ کوئی فلٹر لگائیں۔ ورنہ ہر خواہش مند کھاتا پیتا ویلا نوجوان کسی بھی جماعت میں اپنی اوقات اور بساط کے مطابق گھس کر اشتہار بازی شروع کر لیتا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ فوج ، عدلیہ، بیوروکریسی ، انجینئرز ، ڈاکٹرز اور پروفیسرز کے لیے بھی تعلیم اور تربیت کے کچھ معیارات ہوتے ہیں مگر سیاست میں ؟ آپ کے پاس بلیک منی ہو یا آپ کے ماں باپ سیاستدان ہوںتو کیسا سیاسی کلچر جنم لے گا؟ اس سارے MESS کو کون ختم کرے گا ؟ اگر ایسے ہی رہا تو لکھنے والے لکھتے رہیں گے اور بولنے والے بولتے رہیں گے۔ پیاز کے چھلکے اتارتے رہنے کا یہ عمل کب تک جاری رہے گا؟ الٹے پیالے کون بھرے گا؟ ٭٭٭٭٭