میر تقی میر کا موضوع سخن تو دنیا کی بے ثباتی اور حضرت انسان کی بے بسی ہے لیکن اطلاق اس آفاقی شعر کا ہمارے پڑوسی ملک افغانستان اور اس کے کوہ و دمن پر وقتاً فوقتاً فوج کشی کرنے والی اپنے وقت کی تین سپر پاور برطانیہ عظمیٰ‘سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ پر ہوتا ہے جو باری باری اس خطہ ارضی سے بصد سامان رسوائی نکلیں‘ میر صاحب نے کہا ؎ آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت اسباب لٹایاں راہ میں ہر سفری کا امریکہ 9/11کے واقعہ کو جواز بنا کر اپنے چار درجن اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا تو عام خیال یہی تھا کہ مہلک ہتھیاروں‘جدید ٹیکنالوجی اور سفارتی تائید و حمائت سے لیس یہ سپر پاور چند دنوں میں ایک نہتی قوم اور بے وسیلہ ریاست کو تہس نہس کر کے فاتح عالم کی حیثیت سے واپسی کی راہ لے گی اور آئندہ کوئی شخص طالبان کہلانے کی جرأت کرے گا نہ امریکہ کو للکارنے کی ہمت‘ بیس سال کی بے ثمر جنگ اور اربوں ڈالر کے ضیاع کے باوجود سپر پاور امریکہ انہی طالبان سے امن کی بھیک مانگ رہی ہے جنہیں جارح بش جونیئر نے غرور و استہزا کے ساتھ غیر مہذب دہشت گرد قرار دیا تھا‘ پاکستان پر دبائو یہ ہے کہ وہ افغان طالبان کو صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے ساتھ شرکت اقتدار پر راضی کرے اور یہ یقین دلائے کہ وہ امریکی فوج کے مکمل انخلا کے بعد ماضی کی طرح کابل بلکہ پورے افغانستان کو بزور طاقت فتح کریں گے نہ خطے میں امریکی مفادات کے لئے خطرہ بنیں گے۔ پاکستان نے بلا شبہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور امریکہ کی جائز باتیں ماننے پر آمادہ کیا اور طالبان اشرف غنی کی افغان حکومت کے درمیان رابطوں کی راہ ہموار کی‘ افغان طالبان کو یہ باور بھی کرایا کہ وہ بلا شرکت غیرے کابل پر حکمرانی اور ماضی کی طرح عالمی برادری سے کٹ کر اپنی طرز کا نظام حکومت قائم کرنے کی ضد چھوڑ دیں اور اقتدار میں شرکت کے کسی باعزت‘ منصفانہ اور قابل عمل فارمولے پر متفق ہوں مگر افغان طالبان کی قیادت کا تاحال موقف یہ ہے کہ وہ عصر کے وقت روزہ کیوں توڑیں اپنی شہادتوں اور قربانیوں پر سمجھوتہ کر کے ایک ایسے ریاستی نظام کا حصہ کیوں بنیں‘جس کی سٹیرنگ نشست پر امریکی کٹھ پتلیاں براجمان ہوں اور جس کا مقصد افغان عوام کے جذبات و احساسات‘مقاصد و مفادات کے بجائے امریکہ و یورپ کے عزائم کی تکمیل ہو۔یہ کشمکش جاری ہے اور امریکہ نے عہد شکنی سے طالبان کو ایک بار پھر سرکشی کی طرف دھکیل دیا ہے‘ ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں طالبان کی عدم شرکت پاکستان کے لئے حوصلہ شکن ہے جبکہ طالبان اور اشرف غنی حکومت کے مابین کسی پائیدار اور قابل عمل سمجھوتے کا انتظار کئے بغیر امریکی فوج کا 11ستمبر تک مکمل انخلاء پاکستان کے لئے مزید درد سر۔ پاکستان کی ہئیت مقتدرہ اگرچہ افغان طالبان پر مسلسل دبائو ڈال رہی ہے کہ وہ 11ستمبر سے قبل کسی سمجھوتے پر پہنچ کر افغانستان کو متوقع خانہ جنگی سے بچائیں اور مکمل فتح کے خواب نہ دیکھیں‘ اس ضمن میں ایک اہم شخصیت کو افغان طالبان کی قیادت سے فیصلہ کن بات چیت کا ٹاسک دیا گیا ہے جس کے ابتدائی رابطوں کی حوصلہ افزا رپورٹیں موصول ہوئی ہیں لیکن یہ اندیشہ پروان چڑھ رہا ہے کہ اگر طالبان قیادت اور اشرف غنی حکومت کے مابین مفاہمت کی راہ ہموار نہ ہوئی تو افغانستان کے حالات 1990ء کی دہائی کی طرح پھر خراب ہوں گے اور پاکستان مہاجرین کی آمد‘ دہشت گردی اور عدم استحکام کی صورت میں اس کے منفی اثرات بھگتے گا۔ ویت نام سے نکلنے کے بعد جب وہاں امریکی مفادات کو زد پہنچی تو اس کا ذمہ دار کمبوڈیا کو قرار دے کر جارح قوت نے ایسے حالات پیدا کئے کہ ویت نام کا ہمسایہ ملک عشروں سے عدم استحکام کا شکار ہے‘ پاکستان کی خواہش ہے کہ تین چار سال تک افغانستان کو عبوری مخلوط حکومت کے ذریعے سیاسی‘ معاشی اور سماجی استحکام نصیب ہو‘ جنگ کے مکروہ اثرات سے نجات ملے اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے افغان طالبان اگر پورے ملک کا اقتدار سنبھالنے کی پوزیشن میں ہیں تو بخوشی سنبھالیں‘ بصورت دیگر اندیشہ یہ ہے کہ اشرف غنی حکومت اپنے تحفظ کے لئے بھارت پر انحصار کرے گا جو این ڈی ایس کے ذریعے پاکستان کے خلاف شرارتوں سے باز نہیں آ سکتا جبکہ افغان طالبان کی فوری کامیابی سے پاکستان میں موجود اس کے حامیوں بالخصوص کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو تقویت ملے گی اور وہ ریاست کے لئے مشکلات پیدا کریں گے۔ پاکستان افغان طالبان کو ترغیب دے رہا ہے کہ وہ مخلوط عبوری حکومت میں شامل ہو کر سیاسی اثرورسوخ میں مزید اضافہ اور حکمرانی کا تجربہ حاصل کریں اور بین المملکتی تعلقات کے اسرار و رموز سیکھیں تاکہ ماضی کی طرح غلطیوں کے مرتکب نہ ہوں امریکہ کا افغانستان میں مزید ٹھہرنا ممکن نہیں‘امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے دعویٰ تو یہی کیا ہے کہ ہمارے فوجیں واپس جا رہی ہیں‘ ہم افغانستان میں موجود رہیں گے مگر جی کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا۔فوجوں کی عدم موجودگی میں امریکہ کا افغانستان میں وجود ایک ایسی حکومت کا مرہون منت ہو گا جو سوفیصد سپر پاور کی دست نگر اور خوشہ چیں ہو جبکہ افغان طالبان کے علاوہ افغانستان کے ہمسائے چین اور روس ہرگز اس کا موقع فراہم نہیں کریں گے پاکستان امریکی فوجی انخلا کے بعد ایک نئی آزمائش سے دوچار ہو سکتا ہے امریکی حکمران اپنے عوام اور نیٹو جیسے اتحادیوں کو مطمئن کرنے کے لئے پاکستان پر الزام تراشی کر سکتے ہیں اور افغان طالبان بھی مشرف دور میں ظہور پذیر ہونے والے ناخوشگوار واقعات کو شائد نہ بھولے ہوں‘جوں جوں ستمبر قریب آ رہا ہے پاکستان کی ہئیت مقتدرہ عرصہ محشر کی طرف بڑھ رہی ہے‘تنے ہوئے رسّے پر چلنے کے اس عمل میں سخت احتیاط اور انتہا درجے کی دانش مندی درکار ہے سوویت یونین کی فوجوں کا انخلا ہوا تو افغانستان کی خانہ جنگی نے پاکستان کو بُری طرح متاثر کیا‘9/11کا ملبہ بھی پاکستان پر گرا اور اس کے ناخوشگوار اثرات قوم اب تک بھگت رہی ہے۔دوست افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے مگر امریکہ کی مسلط کردہ کٹھ پتلی اشرف غنی حکومت اور افغان طالبان کے مابین توازن برقرار رکھنا اصل آزمائش ہے جس سے عہدہ برا ہونے کے لئے غیرمعمولی حکمت و دانش‘ تدبر و تحمل اور صبر و برداشت درکار‘ کیا ہماری ہئیت مقتدرہ ان اوصاف کی حامل ہے ؟ ؎ لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا حضرت ضیاء الحق نقشبندی الامین اکیڈمی شاماد ن لاہور کے ذریعے ہونہار‘ ذہین مگر بے وسیلہ نوجوانوں کو بلا معاوضہ مقابلے کے امتحان(سی ایس ایس و پی سی ایس) کی تیاری کراتے ہیں اب تک الامین اکیڈمی سے فیضاب کئی نوجوان مقابلے کے امتحان پاس کر کے تربیتی مراحل طے کر رہے ہیں‘نامور اخبار نویس ‘ وکلا‘ ماہرین تعلیم اور ریٹائرڈ ججز اس نیک کام میں الامین اکیڈمی کے معاون و مددگار ہیں۔خیرو برکت کے ماہ مبارک میں اہل خیر دل کھول کر الامین اکیڈمی کو اپنے عطیات سے نوازیں تاکہ غریب گھرانوں کے ذہین نوجوان بھی قومی سطح پر انتظامیہ کا حصہ بن سکیں اکیڈمی میں زیر تعلیم نوجوانوں کے لئے نماز پنجگانہ کی ادائیگی اور اخلاقی تربیت کا خصوصی اہتمام ہے۔