قدرت اللہ شہاب معروف بیوروکریٹ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی کتاب ’’شہاب نامہ ‘‘ میںاقتدر کی غلام گردشوں کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے ،وہ اپنی اس کتاب میں رقم طراز ہیں کہ ’’قیام پاکستان کے بعد مجھے انڈر سیکرٹری کے طور پر امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ سیکشن کا انچارج بنایا گیا مسٹر آئی آئی چندریگر وزیر اور غلام محمد وزیر خزانہ تھے کراچی میں دفتری اور رہائشی ضروریات کے لیے نئی عمارتیں زیر تعمیر تھی اْن کے لیے سینٹری کا سامان درآمد کرنا تھا اس کے لیے ایک میٹنگ بلائی گئی میٹنگ میں چار وزیر اور کچھ افسر تھے۔ وزیروں میں مولوی فضل الرحمان بھی تھے اْن کے پاس داخلہ کا چارج بھی تھا کچھ بحث و تحمیص کے بعد جب سینٹری کے سامان کا کوٹہ طے ہو گیا تو وزیر تعلیم نے دبے الفاظ میں تجویز پیش کی کہ اگر امپورٹ کا کچھ حصہ ڈھاکہ کے لیے مخصوص کر دیا جائے تو مناسب ہو گا۔ اس تجویز پر بڑی ہنسی اْڑی کسی نے کہا ڈھاکہ میں کوئی خاص تعمیری کام شروع نہیں ہوا اس لیے وہاں یہ سامان بھیجنے کی کوئی تْک نہیں کسی نے کہا جو سامان ڈھاکہ جائے گا وہ لازمی طور اسمگل ہو کر کولکتہ جائے گا۔ ایک صاحب نے مذاق ہی مذاق میں یہ پھبتی اْڑائی کہ کہ بنگالی لوگ کیلے کی گاچھ کی اوٹ میں بیٹھ کر رفع حاجت کرنے کے عادی ہیں وہ ابھی سے کموڈ اور واش بیسن لے کر کیا کریں گے‘‘۔ شہاب نامے میں بنگالی بھائیوں کے ساتھ ہمارے جس رویئے کی نشاندہی کی گئی اسے میں نے اپنی آنکھوں سے کراچی میں دیکھ رکھا ہے بلکہ میں ہی کیا کراچی والے آج بھی شاہد ہوں گے ،ہم نے اپنے اسی مزاج سے پاکستان کا نقشہ بدلا مشرقی پاکستان نہیں رہا لیکن بنگالیوں کے ساتھ رو ارکھا گیا سلوک آج بھی ویسا ہی ہے ۔کراچی میں بنگالی آبادیاں شہر کی سب سے پسماندہ آبادیاںہیں’’بنگالی ‘‘ نام پھبتی بن چکاہے ہم انہیں حقارت سے دیکھتے ہیںہمارے پاس ان کے لئے گنا بیلنے کی مشینیں اور مچھلیاں پکڑنے کے جالوں کے سوا کیا ہے ؟ شہاب نامے کا یہ واقعہ ابھی اپنے ذہن ہی میں رکھیں اور کچھ دیر کے لئے استنبول چلیں،یہ چھ سات پہلے کی بات ہے میں استنبول کے علاقے فاتحی میں گھوم پھر رہا تھا خنک موسم میں مجھے سوئٹر کی طلب ہو ئی ایک دکان میں سیل کا بورڈ لگا دیکھا تو اندر چلا گیا وول کا بنا ہوا ہلکا پھلکا ایک سوئٹر پسند آیا خرید کر پہن لیا اچھا گرم سوئٹر تھا اس نے میرا کافی ساتھ دیا وطن واپسی پر بھی وہ سوئٹر ساتھ ہی تھا۔ کراچی کی سردیوں میں وہ ہلکا پھلکا سوئٹر کافی آم آیا یونہی ایک دن دفتر جاتے ہوئے میں سوئٹر پہننے لگا توخیال آیا کہ دیکھوں تو سہی کہ یہ ترکی میں کہاں کا بنا ہوا ہے جب میں نے الٹ پلٹ کراس کا ٹیگ دیکھا تو میڈ ان بنگلہ دیش کے الفاظ نے حیران کردیاحیرت اس بات پر کہ بنگلہ دیش میں تو کپاس کی اک گانٹھ تک نہیں ہوتی لیکن اس کا بنا ہوا سوئٹر استنبول میں فروخت ہورہا ہے۔ بنگلہ دیش کہاں سے کہاں پہنچ گیا اورآج ہم دنیا میں کشکول لئے گھوم رہے ہیں اوروہ جنہیںہم کیلے کی گاچھ میں بیٹھ کررفع حاجت کرنے والے’’بھوکے ننگے ‘‘بنگالی کہا کرتے تھے اس وقت تیار شدہ ملبوسات کی ایکسپورٹ میں دنیا کے تین بڑے ممالک میں سے ایک ہیں ،گزشتہ مالی سال میں بنگلہ دیش کی ایکسپورٹ 52بلین امریکی ڈالر تک تھیں۔میرے سامنے ٹیکسٹائل کی مصنوعات بنانے اور ایکسپورٹ کرنے والے دس ممالک کی فہرست ہے ان میں بنگلہ دیش ،ویت نام،ترکی ،چین ، میکسیکو ،مراکو،مصر،پیرو اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کے نام درج ہیں نہیں ہے تو کپاس کو گھر کی کھیتی کہنے والے پاکستان کا۔ آج بنگلہ دیش کی امپورٹ ایکسپورٹ کے اعداد و شمار دیکھ لیں 2021ء میں بنگلہ دیش نے 52.08 بلین ڈالر کی اشیاء پر میڈ ان بنگلہ دیش کا ٹھپہ لگا کر بیرون ملک بھیجیں مزے کی بات صرف ٹیکسٹائل ایکسپورٹ31.06 بلین ڈالر رہیں ان کے مقابلے میں ہم پیٹ بھرے پرپاش پاکستانیوں کی 2021 ء میں مجموعی ایکسپورٹ25.304 بلین ڈالر تھیں اس میں دنیا کو بہترین کاٹن دینے والے ملک کی ٹیکسٹائل ایکپسورٹ صرف 14.3 بلین ڈالر رہیں۔ ہمارا حال یہ ہے کہ آج ایک ایک ارب ڈالر کے لئے ہمارا وزیر اعظم جدید جیٹ طیارے میں سوار ہو کر بہترین تراش خراش کے لباس میں کبھی عربوں کے پاس پہنچتے ہیں اور ترکوں کے پاس،چین دو تین ارب ڈالر کا قرض دے دیتا ہے تو ہم بغلیں بجاتے پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے کہ دو دن کا راشن آگیا،ہم ایک ایک ارب ڈالر کے لئے آئی ایم ایف کی ہر بات ماننے کو تیار ہیں وہ وہاں بجلی گیس اور پٹرول کی قیمت طے کر رہا ہے اور ہم سینے پر ہاتھ رکھے کورنش بجا لارہے ہیں کہ جناب جیسا کہیں گے ویسا ہی ہوگا ،فکر نہ کیجئے، خاکم بدہن یہ حالات کسی ملک کے چلنے کے ہیں یا چل چلاؤ کے! آج کیلے کی گاچھ میں رفع حاجت کا طعنے سننے والے بنگالی جہاں کپاس کی ’’ک‘‘ بھی نہیں لکھی جاتی وہ دنیا بھرکو کپڑے بیچ رہا ہے بنگلہ دیش میں آج سے پانچ برس پہلے تک گارمنٹس فیکٹریوں کی تعدادچار ہزار سے زیادہ تھیںاس وقت بنگلہ دیش دنیا بھر میں ملبوسات کی ایکسپورٹ میں پندرہ فیصدکا حصہ دار ہے۔ آج بنگلہ دیش کا پاسپورٹ اور کرنسی ہم سے زیادہ طاقتور ہے۔ سچ میں تعلیم اورکاروبار میں ہمارابنگلہ دیش سے کوئی مقابلہ نہیں ہم مضبوط دفاع اور ایٹم بم رکھنے کے باوجود کمزور ہیںجیسے کبھی بنگلہ دیش تھا لیکن وہ لگا رہا اور ٹیک آف کر گیا اور ہم ابھی تک رن وے پردوڑ رہے ہیں ۔ کبھی ہماراجھوٹا احساس تفاخر مشرقی پاکستان کو اپنے برابر کا نہیں سمجھتا تھا ہم ان پرہنستے تھے آج بنگلہ دیش سچ میں ہمارے برابر نہیںاسکی فی کس آمدنی اور ایکسپورٹ ہم پر ہنس رہی ہے۔ بات بری لگے گی لیکن سچ ہے پڑھ کرچینی کا پھکا مار لیجئے گا تلخی دور ہوجائے گی کہ کل ہم کہتے تھے کہ بنگلہ دیش ہمارے برابر کے نہیںاور آج بنگلہ دیش نے یہ ثابت کردیا!