جب میں لاہور سے کراچی منتقل ہوا۔ یہ جولائی 1973ء کی بات ہے تو مرے کیسے میں صرف تین سکّے تھے جن کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ یہ کراچی کی مارکیٹ میں چل سکتے ہیں۔ تین افراد کے حوالے مرے ساتھ تھے کہ کراچی جا کر ان سے رابطہ کروں گا اور آئندہ کی حکمت عملی طے کروں گا۔ ایک منور حسن‘ دوسرے ڈاکٹر عارف علوی اور تیسرے دوست محمد فیضی۔ منور صاحب کو فون کیا تو کہنے لگے ابھی رکشا پکڑوں اور اسے بتائو فیڈرل بی ایریا جانا ہے۔ پل پار کر کے فلاں سمت مڑو‘ پھر فلاں سمت۔ بس سامنے ہی تمہیں ادارہ معارف اسلامیہ کا بورڈ نظر آ جائے گا۔ میں یہاں تمہارا منتظر ہوں۔میں فوراً ہی درست جگہ پہنچ گیا۔ منور صاحب ہنس کر بولے‘ کامیاب ہوگئے۔ جو شخص کراچی میں پہلی دفعہ پتا بتانے پر ٹھیک پہنچ جائے وہ کامیاب رہتا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی کو فون کیا تو معلوم ہوا وہ کل ہی اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ جا چکے ہیں اور اب کم از کم ایک ڈیڑھ سال بعد آئیں گے۔ مری جیب میں تیسرا سکہ دوست محمد فیضی کا تھا انہیں فون کیا تو وہ ویسپا سکوٹر پر بیٹھ کر چند لمحوںہی میں آن پہنچے۔ ان کا گھر میرے گھر کے بہت قریب تھا۔ مجھے سکوٹر پر بٹھایا اور قریب ہی طارق روڈ ایک چھوٹے سے خوبصورت ریستوران میں لے گئے۔ آج فیضی ہم سے رخصت ہوئے تو مجھے وہ دن یاد آئے۔ منور حسن بھی شدید علیل ہیں۔ خدا انہیں صحت عطا کرے۔ میں نے ان کے ساتھ بہت وقت گزارا ہے۔ میں سخت اداس ہوں۔ اس بات کو 47سال گزر گئے۔ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے۔ فیضی اس زمانے ایک شاندار مقرر کی شہرت رکھتے تھے۔ ابھی ابھی یونیورسٹی سے نکلے تھے۔ ایک ٹولہ تھامقررین کا‘ جن میں خوش بخت شجاعت۔ ضیا زبیری نمایاں تھے اور بہت سے لوگ تھے۔ نام اس لئے نہیں لکھ رہا کہ جانے کون کیا تھا اور کون کیا۔ بڑے نامور لوگ تھے۔ اپنے زمانے کے۔زبیری ان دنوں سندھ اسمبلی میں تھے وہ اس طرح کہ شاہ فرید الحق لیڈر آف دی اپوزیشن تھے۔ طے ہوا کہ زبیری کو باضابطہ ان کا سرکاری طور پر سیکرٹری مقرر کر دیا جائے۔ زبیری سچ مچ تعلقات عامہ کے آدمی ہیں۔ انہوں نے بعد میں شیڈوز اور سیمنز جیسے ملٹی نیشنل اداروں میں کام کیا۔ مگر اس وقت بھی وہ احباب میں سب سے مضبوط رابطہ تھے۔ ایک طرف تو سندھ اسمبلی میں ظہور الحسن بھوپالی ابھر رہے تھے جنہیں یہ نوجوان بہت چاہتے تھے۔ وہ اس وقت جے یو پی میں تھے بعد میں انہوں نے الگ ہو کر کراچی کے مسائل پر کام شروع کیا‘ انہیں شہید کر دیا گیا۔ کہاں جاتا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو کراچی میں الطاف حسین تنگ نظر سوچ کی ضرورت نہ پڑتی۔ اسی طرح زبیری کی دوستی فیضی سے بھی تھی۔زبیری سمیت ان دنوں کے نوجوانوں میں خوبی یہ تھی کہ وہ خود کو آگے کرنے کے بجائے ان دوستوں کو آگے کرتے تھے جن کے بارے میں خیال ہو کہ وہ ملک و قوم کے لئے کچھ کر سکتے ہیں۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جب کبھی کالجوں میں کسی مباحثے کے لئے مدعو کئے جاتے تو یہ سب فیضی کو مناسب عزت و احترام دیتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا اور سندھ میں صوبائی حکومت بنائی گئی تو اس میں غالباً دو مشیر یا وزیر لئے گئے۔ ان میں ایک فیضی تھے یوں وہ سندھ اور کراچی کی سیاست میں نوجوان نسل کے نمائندے کے طور سامنے آئے کراچی کی فضا میں ان دنوں نوجوان قیادت کی کمی نہ تھی۔ مگر فیصلے کوئی دوسرے ہو چکے تھے۔ فیضی طبیعت کے بڑے دھیمے اور شریف النفس انسان تھے۔ وہ بہت دھیمے انداز میں سیاست کرتے رہے‘ ایک وقت آیا کہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی میں بھی جا پہنچے۔ مگر کراچی کو انگارے اگلنے والوں کی ضرورت تھی۔ حکمت عملی کچھ بھی ہو مگر یہ شہر ان کے سپرد کر دیا گیا۔ ایسے ماحول میں شریف آدمی کا زندہ رہنا بھی مشکل تھا۔ کیا کیا لوگ تھے جو کراچی کا سرمایہ تھے مگر موت کی پینگ پر جھول گئے کیونکہ انہیں کراچی کے نئے بادشاہ پسند نہیں کرتے تھے۔ فیضی ایک تسلسل کے ساتھ بڑے دھیمے اور متین انداز میں اپنے کام پر لگے رہے۔خیال کیا جاتا تھا کہ اچھا وقت آئے گا تو وہ اس شہر ہی نہیں ملک کے افق پر ایک روشن ستارہ بن کر ابھریںگے مگر اس کورونا کی دنیا نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ شاید انہوں نے گھر ہی پر پندرہ روزہ تراویح کا انتظام کیا ہے۔ بس اپنے گنے چنے احباب کے لئے یا گھر والوں کے لئے۔ اس کے بعد ایک بار وہ شاید اپنے بھتیجے کے ہاں ختم قرآن پر گئے۔ وگرنہ انہوں نے زیادہ وقت گھر کی تنہاہیوں میں گزارا۔ ایک دن معلوم ہوا کہ ان میں اس بیماری کی علامات پائی جاتی ہیں۔انہوں نے شاید دیر کر دی۔ ہسپتال پہنچے تو تاخیر ہو چکی تھی۔ پلازمہ بھی لگا اور وہ انجکشن بھی جس کے معجزاتی اثرات کا بڑا چرچا ہے مگر زمین اس آسماں کو بھی نگل گئی۔ہمارا فیضی ہم سے چھن گیا۔ کراچی کے حالات نارمل رہتے تو فطری طور پر کراچی کی قیادت مختلف ہوتی۔میں نے ہر پارٹی میں جانثاروں کی ایک کہکشاں دیکھی ہے جو اچھے وقت کی منتظر رہی۔ فیضی کی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ صرف ایک سیاسی آدمی نہ تھے ایک سوشل شخصیت بھی تھے۔ مجھے اندازہ ہے اس وقت کراچی میں کتنے لوگ غم زدہ ہوں گے دوست محمد فیضی دوبارہ نہیں آ سکتا۔ فیضی سے گزشتہ دنوں اچانک ملاقات ہو گئی مجیب شامی صاحب کا فون آیا کہ دوست محمد فیضی آئے ہوئے ہیں۔ دوپہر کو ان کے ساتھ جم خانہ میں کھانا کھاتے ہیں۔ کوئی نہ تھا۔ صرف رئوف طاہر تھے۔ فیضی کے اصرار پر ہم ڈائننگ ہال کے بجائے پیچھے برآمدے میں بیٹھے ‘دو گھنٹے سے زیادہ گپ شپ رہی۔ شامی صاحب بھی چونکہ کراچی میں رہے ہیں۔اس لئے سیاسی صورت حال پر گفتگو کے ساتھ پرانے دنوں کی یادیں تازہ ہوتی رہیں۔ایسے لگتا ہے وہ آخری ملاقات کے لئے آئے تھے۔ ضیا زبیری نے جب خبر دی اور اگلے ہی لمحے نصیر سلیمی نے توثیق کی تو یوں لگا کہ کراچی کی کتاب متانت کا ایک ورق پھاڑ کر ہوائوں میں اڑا دیا گیا ہے۔ میں صرف تیزی سے چند تاثرات لکھ رہا ہوں۔ مجھے جلد یہ کالم بھیجنا ہے۔ ویسے بھی زیادہ لکھنے کی سکت نہیں ہے۔ سچی بات ہے کہ ہمارے ہم عصروں میں ایک بہت سچا شخص ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ہے۔ شاید سچائی ہمارے درمیان سے آہستہ آہستہ اٹھتی جا رہی ہے۔ شاید !اب بھی شاید؟