برسوں پہلے ہندوستان میں ایک فلم بنی تھی’’البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے؟‘‘ فلم کا عنوان ایسا چونکا دینے والا تھا کہ اسے دیکھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔ اسی پر غور کرتے رہ گئے کہ ہمیں غصہ کیوں آتا ہے؟ چونکہ ہم میں سے کون ہے جسے غصہ نہیں آتا اور آتا ہو تو وہ اسے پی جاتا ہو اور جس پر غصہ آتا ہو اسے معاف کر دیتا ہو۔ ہم سب ہی البرٹ پنٹو ہیں کہ ہم سب غصے کے شکار ہیں۔ غصے کا مطلب ہے اپنے اندر بھڑک اٹھنے والے آتش خفت سے مغلوب ہو جانا اور مغلوب ہو کر چیخ و پکار کرنا‘ دوسرے کو اذیت دینا‘ اسے مارنا پیٹنا یہاں تک کہ قتل کر ڈالنا۔ یہ غصے کی انتہا ہے۔ بالی ووڈ کی بنی ہوئی مذکورہ فلم ہمیں آج اس خبر کے ساتھ یاد آئی جس میں ایک عالمی سروے کے حوالے سے انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے انسان ماضی کے مقابلے میں آج زیادہ افسردہ‘ چڑچڑے‘ پریشان اور غصہ ور ہو گئے ہیں۔ زیادہ غصہ کرنے والے ملکوں میں ہمارا ملک دسویں نمبر پہ آتا ہے۔ تو اب سوال یوں بنا کہ پاکستانیوں کو غصہ کیوں آتا ہے؟ ظاہر ہے اس کی کوئی دو ایک وجہ تو ہے نہیں۔ اس کی بہت سی وجوہ اور بے شمار اسباب ہیں۔ انہیں گنوانے کی ضرورت نہیں۔ کون نہیں جانتا کہ ہمارا ملک کسی اونٹ کی طرح ہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ یہاں ظلم ہے‘ ناانصافی ہے‘ استحصال ہے‘ بدعنوانی اور بے حسی ہے۔ یہاں طاقت ور کی طاقت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور بے چارے کمزور کی کمزوری بڑھتی ہی جاتی ہے تو غصہ کیوں نہ آئے۔ لیکن عجیب قرینہ یہ ہے کہ یہاں کمزوروں کے مقابلے میں طاقت ور ہی مغلوب الغضب ہیں۔ یعنی وہی غصہ کرتے ہیں جن کے پاس دھن دولت ‘ اقتدار و طاقت اور عزت و شہرت ہے اور جو کمزور و رذیل ہیں وہ اپنے حال پر قانع ہیں اور صبر وشکر سے زندگی کے دن کاٹتے ہیں۔ ہم نے امیروں کا غصہ دیکھا ہے‘ سیاست دانوں اور حکمرانوں کا غصہ دیکھا ہے‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا غصہ دیکھا ہے اور جو نہیں دیکھا تو غریبوں کا غصہ نہیں دیکھا۔ کسی موچی اور ماسی‘ کسی ڈرائیور اور مالی‘ کسی چپڑاسی اور چوکیدار‘ کسی کلرک اور عدالتی پیش کار کو غصہ کرتے نہیں دیکھا۔ حالانکہ غصہ کرنے کے اسباب اس طبقے کے پاس کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن عملاً ہم نے بیگم صاحبہ ہی کو ماسی پر چلاتے دھاڑتے‘ باس کو کلرک کو ناکارہ و نکما کہتے‘ صاحب کو ڈرائیور پر‘ وکیلوں اور ججوں کو پیش کار پر اور جوتے کی معمولی سی غلط مرمت کرنے پر گاہک کو موچی پر برستے دیکھا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ آدمی تعلیم یافتہ ہو کر بھی اپنے غصے کو تھوکنا نہیں جانتا اور جاہل و غریب آدمی غصے کے وقت سر جھکا لیتا ہے۔ خود غصہ نہیں کرتا‘ صاحب اور مالک کے غصے کو سہتا اور جھیلتا ہے۔ کیا اسے غصے کا حق نہیں؟ یا وہ جانتا ہے کہ غصہ صرف طاقتوروں ہی کا حق ہے‘ ہم جو مفلس و نادار ہیں ہمیں غصہ کرنا نہیں جچتا۔ اگر ہم جواباً غصہ کریں گے تو نوکری سے نکال دیے جائیں گے‘ رزق تنگ ہو جائے گا۔ زندگی کا بوجھ اٹھانا اور تکلیف دہ ہو جائے گا۔ اس لیے وہ غلطی نہ کر کے بھی غلطی مان لیتے ہیں۔ جھڑکیاں سہہ کر اور گالیاں سن کر بھی خاموشی ہی کو عافیت جانتے ہیں۔ انہیں اس کا بھی تجربہ ہے کہ ان کے طبقے کے جس فرد نے بھی جواباً غصہ کیا‘ اس کا نتیجہ اچھا نہ آیا۔ شاید اسی لئے امیروں کے پاس اپنی امارت کا احساس اور نتیجے میں مسکراہٹ اور قہقہے سے زیادہ نک چڑھا پن اور غصہ ہوتا ہے جبکہ غریبوں اور مفلسوں کے پاس اپنی غربت و مفلسی کی معذرت‘ خاموشی اور دعائیں ہوتی ہیں کہ اے خدا! ہم پہ رحم کر دے۔ مذکورہ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ غصہ ایک منفی جذبہ ہے جو آدمی کی ذہنی اور جذباتی صحت کے لئے مفید نہیں۔ جو زیادہ غصہ کرتے ہیں وہ ایک خاص مدت گزارنے کے بعد کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ غصہ سانس لینے کی طرح ضروری نہیں۔ غصہ نہ کرنے سے آدمی کسی گھاٹے یا نقصان میں نہیں رہتا۔ بلکہ غصے پہ قابو پا کر وہ اس ندامت اور پچھتاوے سے بچ جاتا ہے جو غصہ نکل جانے کے بعد آدمی پر طاری ہوتا ہے اور صاحب ضمیر ہو تو’’سوری‘‘ اور ’’معاف کر دینا‘‘ یہ کہہ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرتا ہے یہ آدمی ہی ہے جو اپنے منفی جذبات پر قابو پا سکتا ہے۔ یہ شرف حیوانوں کو حاصل نہیں۔ جنگلی اور وحشی جانور اپنی جبلت کے غلام ہوتے ہیں آدمی اپنی وحشیانہ جبلتوں کو اپنے علم اور آگہی سے بیڑیاں ڈال سکتا ہے۔ مذہب اور اخلاق بھی اسی کی تعلیم دیتے ہیں۔ آج اگر دنیا کے بیشتر لوگ غصے اور غضب کا شکار ہو کر افسردہ ‘ چڑچڑے اور پریشان حال ہیں تو وجہ کچھ اور نہیں‘علم و آگہی کے بعد بھی انہوں نے اپنی جبلتوں اور منفی جذبوں کو قابو میں رکھنا نہیں سیکھا۔ مذہب غصے پر قابو پانا سکھاتا ہے۔ وہ کہتا ہے جب غصہ آئے تو اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جائو‘ بیٹھے ہو تو لیٹ جائو اور واقعی ایسا ہی ہوتاہے۔ کسی کو یقین نہ آئے توتجربہ کر کے دیکھ لے۔ اس کی بڑی معقول وجہ ہے۔ غصہ اور حقارت کے جذبات احساس برتری سے پیدا ہوتے ہیں۔ میں نوکر پر اس لیے چلاتا ہوں کہ میں مالک ہوں۔ نوکر سے برتر ہوں اور مجھے چلانے‘ توہین و تذلیل کرنے کا حق ہے لیکن کھڑے ہو کر چلاتے چیختے ہوئے مجھے بیٹھنا پڑ جائے تو میرا غصہ کچھ ٹھنڈا پڑ جائے گا اور لیٹ جائوں تو شاید اپنے غصے پر قابو پانا آسان ہو جائے۔ آدمی جب بیٹھتا اور لیٹ جاتا ہے تو وہ پستی اور عاجزی اختیار کرتا ہے۔ یہ کمزوری اور تذلّل اس کے احساس برتری کو زائل کر دیتا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم لیٹے ہوئے ہوں تو غصہ آنے کی صورت میں اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور بیٹھے ہوں تو کھڑے ہو جاتے ہیں‘ چہرے کی رنگت بدل جاتی ہے‘ اعصاب میں تنائو پیدا ہو جاتا ہے‘ بسا اوقات آستین بھی چڑھ جاتی ہیں اور منہ سے جھاگ نکلنے لگتا ہے یہ سارا تجزیہ بتاتا ہے کہ غصہ حالت جلالی کا نام ہے اور اس کی جگہ محبت سے معاف کر دینا‘ عفو و درگزر سے کام لینا ایک جمالی کیفیت ہے جو کائنات کے جمال یعنی اس کے حسن سے ہم آہنگ ہے۔ غصہ وقتی ہوتا ہے مگر محبت وقتی اور عارضی نہیں ہوتی۔ جن میں محبت ہو‘ ان میں غصہ کم کم ہوتا ہے اور جو دل محبت کے انمول جذبے سے خالی ہوں‘ ان ہی کو بات بات پر غصہ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ خدا معاف کر دیتا ہے مگر آدمی معاف نہیں کرتا۔ وہ اپنا بدلہ یا انتقام لے کر رہتا ہے۔ خدا کیوں معاف کر دیتا ہے؟ بہرحال ہمیں خوشی ہے کہ غصہ کرنے کے معاملے میں ہم لوگ دسویں نمبر پر آتے ہیں۔ بدعنوانی پر دوسرا نمبر اور غصہ کرنے میں دسواں نمبر۔ کیوں؟ شاید اس لئے کہ بدعنوان آدمی میں اگر ضمیر ادنیٰ سا بھی زندہ ہو تو ایک گلٹ یا ندامت یا خوف پیدا کرتی ہے۔ ندامت یا شرمندگی یا خوف غصے کو رفع کرتے ہیں۔ اس اصول کی روشنی میں آپ ہمارے دو پچھلے حکمرانوں کی تصویر کو ایک نئے زاویے سے دیکھ لیں تو سمجھ پائیں گے کہ وہ مقدمات بھگتنے کے باوجود خاموش کیوں ہیں؟ رویہ جارحانہ کیوں نہیں۔؟