مہنگائی ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے ایک ہفتے میں دوبار پٹرول کی قیمت 60روپے فی لٹر بڑھا کر یکمشت اتنی زیادہ قیمت بڑھانے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔اس میں بھی شک نہیں کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمت بڑھ رہی ہے اور کوئی بھی ملک قیمت خرید سے کم قیمت میں عوام کو تیل مہیا نہیں کر سکتا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس حقیقت کا ادراک اس حکومت کو پہلے نہیں تھا۔ یقین تھا اور اس حکومت کی نیت ہرگز یہ نہیں تھی کہ انہوں نے عوام کو کوئی ریلیف دینا ہے۔ان کا مقصد عمران خان کو حکومت سے نکالنا تھا۔مہنگائی مکائو مہم تو محض ایک بہانہ تھا۔یہ بھی دیکھنے کی ضروت ہے کہ کیا اس حکومت نے پٹرول کی قیمت بڑھانے سے پہلے کسی متبادل حل پر بھی غور کرنے کی کوشش کی یا نہیں۔ روس سے تیل منگوانے کا متبادل کو پہلے ہی زیر غور تھا، اس کے لئے تو صرف دفتری کارروائی کی ضرورت تھی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کمال لاپرواہی سے جواب دیا کہ ان کے خیال میں روس سے تیل امپورٹ کرنے پر پابندی ہے یعنی انہوں نے سرکاری ذرائع سے اپنے اس خیال کو کنفرم کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا جبکہ پاکستان کا عام آدمی بھی جانتا ہے کہ ایسی کوئی پابندی موجود نہیں ہے اور چین‘ بھارت‘ سری لنکا اور خود یورپ بھی ابھی تک روس سے تیل درآمد کر رہا ہے ۔ اب بنگلہ دیش بھی اس کے لئے کوشش کر رہا ہے کیا ہم ہی اتنے کمزور دل واقع ہوئے ہیں کہ ہم نے خود ہی فرض کر لیا ہے روس سے تیل درآمد کرنے پر پابندی ہے۔ شاید ہمیں یہ گمان ہے کہ روس سے تیل منگوانا امریکہ کی طبع نازک پہ گراں گزرے گا۔اس لئے ہمیں اس کے کوشش ہی نہیں کرنی چاہیے۔ سارا بوجھ عوام کو منتقل کیا جائے کیونکہ عوام تو بے زبان ہے اور اگر کوئی زبان کھولنے کی جرات کرے تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ہماری بدقسمتی کہ ہمارے میڈیا کا بیشتر حصہ پہلے ہی بکنے کے لئے تیار بیٹھا تھا۔جو انہیں بہتر پیشکش کرے گا وہ اسی کے ساتھ ہیں۔حکومت کا بھی یہی خیال ہے کہ اگر میڈیا کا بڑا حصہ ان کے ساتھ ہو تو کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اگرچہ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جب عوام کی جیب پر بوجھ پڑے گا تو وہ محسوس تو ہو گا۔اس کے علاوہ معلومات کے ذرائع اب اتنے بدل چکے ہیں کہ کوئی راز بھی اب راز نہیں رہ سکتا۔عوام کا ردعمل شاید فوری نہ ہو لیکن جلد یا بدیر ردعمل آئے گا ضرور۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ن لیگ کی حکومت بیانیہ بنانے میں یدطولیٰ رکھتی ہے۔عمران خان نے معاشی زبوں حالی کے پیش نظر جن خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ن لیگ کی حکومت نے اسے عمران خان کا منصوبہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے اور اسے کھینچ تان کر بغاوت کی حد تک لے گئی ہے اور بغاوت کا مقدمہ درج کرنے پر بھی غور شروع ہو گیا ہے۔ لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ محترمہ مریم نواز کو اپنا پرانا بیانیہ بھی یاد آیا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ ہم تو فوج پر صرف مثبت تنقید کیا کرتے تھے۔یہ بھی مقام شکر ہے کہ انہوں نے یہ مان لیا ہے کہ وہ قومی اداروں پر تنقید کیا کرتے تھے ورنہ اپنی جائیداد کے بارے میں ان کے دعوئوں کا تو انہوں نے کبھی ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ عمران خان کی کمزوری ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ وہ بولتے پہلے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں اور بہت زیادہ بولتے ہیں۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران بھی انھوں نے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر قوم سے خطاب کیا ہے جس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔انہیں گفتار کا غازی بننے کی بجائے کردار کا غازی بننا چاہیے تھا ،جتنی انرجی عمران خان نے زور بیان میں صرف کی ہے اگر وہ اتنی انرجی عملی اقدامات میں لگاتے تو شاید انہیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ احتساب کا جتنا چرچا انہوں نے اپنی تقریروں میں کیا ہے اگر وہ اس سے نصف بھی عملی طور پر کرتے تو آج وہ یہ گلہ کرتے نظر نہ آتے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پر فرد جرم عائد ہونی تھی اور انہیں حکمران بنا دیا گیا۔اس کا جواب خود ان پر واجب ہے کہ وہ کیوں کسی ایک سیاستدان کا احتساب بھی پونے چار سال میں نہ کر سکے۔آج اگر وہ اس کا ذمے دار اور لوگوں کو ٹھہرائیں گے تو خود ان کی اہلیت پر سوال اٹھیں گے۔ اگر وہ پونے چار سال کے طویل عرصے میں یہ کام نہ کر سکتے تو آئندہ کیسے توقع رکھی جائے کہ وہ کسی کا احتساب کر سکیں گے۔اقتدار چھوڑنے کے بعد بھی عمران خان تقریباً روزانہ کی بنیاد پر خطاب کر رہے ہیں۔ لیکن ایک دفعہ بھی عمران خان نے اپنی کسی غلطی کو تسلیم نہیں کیا اور نہ قومی سے یہ عہد کیا ہے کہ وہ اپنی ان غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے۔ جس طرح وہ اب بھی عثمان بزدار کو جلسوں میں ساتھ لئے لئے پھرتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو وہ بزدار کو ہی پنجاب کی کمان سونپیںگے۔عمران خان کو اپنی غلطیوں کی فہرست بنانے اور انہیں نہ دہرانے کا عہد کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب انہیں معلوم ہے کہ ان کے بیانات کا کا طرح پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے تو وہ سوچ سمجھ کے بیانات کیوں نہیں دیتے۔کسی بھی بڑے لیڈر کے لئے بہت زیادہ بولنا اور بغیر تولے ہوئے بولنا خطرناک ہوتا ہے۔سیاستدانوں کے نام بگاڑنا کسی طرح بھی ان کے شایان شان نہیں ہے ان کے مشیر اگر جرأت کا مظاہرہ کر سکیں تو انہیں اپنے لیڈر کو یہ بات سمجھانی چاہیے۔ موجودہ حکومت کی کمزوریاں بے حساب ہیں۔انہیں کسی ڈکٹیٹر کی طرح حکومت چلانا کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔اگر خدا نے انہیں یہ حیرت انگیز موقع دے ہی دیا ہے تو اسے مخالفین پر مقدمے بنانے اور ملک کو پولیس سٹیٹ بنانے میں ضائع نہ کریں قانون کی حکمرانی اور انصاف ہی کسی حکومت کا سرمایہ افتخار ہوتے ہیں۔ جو چار دن انہیں ملے ہیں وہ عوام کی خدمت میں صرف کریں ورنہ جو گڑھے وہ دوسروں کے لئے کھودیں گے‘ کل شاید وہی گڑھے ان کا مقدر بنیں۔ ٭٭٭٭٭