کچھ کم نہیں ہے حاصل سے ہجر یار بھی آنکھوں نے آج دھو دیا دل کا غبار بھی اپنے نقوش پا کے سوا کچھ نہیں ملا اپنے سوا کوئی نہیں صحرا کے پار بھی مسئلہ تو سراسر سوچ کا ہے اور اگر ہم سوچ لیں تو ہم پر کھلتا ہے کہ دائروں میں سفر کر رہے ہیں۔ دائرہ بھی کیا شے ہے کہ نقاط سے مل کر بنا ہے اور یہ غیر محسوس طریقے سے زاویے بناتا اپنا چکر پورا کرتا ہے میں نہیں چاہتا کہ آپ اس پر غور کرتے چکرا جائیں۔ وہی کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ مگر منیر نیازی کہتے ہیں سو سو فکراں دے پرچھاویں۔ سو سو غم جدائی دے۔ مگر کیا کریں یہاں جینا پڑتا ہے اور جینے کے لئے ہنسنے کی بھی ضرورت ہے۔ خود پر ہنسیں یا دوسرے پر۔ جے کر ہسنا چھڈ دیے تو لوکی ہسن لگ پیندے نیں۔ میرے پیارے قارئین بس دل چاہا کہ کوئی امید افزا بات کی جائے یقین رکھنا چاہیے کہ کوئی ہوتا ہے کہیں کام بنانے والا اک بگڑتا ہے تو سو کام سنور جاتے ہیں۔ سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیے ایک طرف میں نے سہارے سارے ابھی معروف دانشور اور استاد جاوید اکرم نے لکھا ہے کہ اے جی آفس میں بڑے سے بڑے افسر کا کام بھی بغیر رشوت کے نہیں ہوتا۔پہلے تو مجھے اس پر ہنسی آ گئی کہ چلیے کسی محکمے میں انصاف تو ہے کہ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا ہے۔ وہی جو کسی نے کہا تھا کہ ہم بے حیا اور گھٹیا نہیں کہ رشوت لے کر بھی کام نہ کریں۔ ہم اپنے بچوں کو حرام نہیں کھلاتے۔ یہ تو سوچ کی بات ہے وہ تو ایک ایس ایچ او نے نماز ادا کی تو ساتھی نے کہا کہ آپ نے تو وضو ہی نہیں کیا اور نماز پڑھ لی۔ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی۔ ایس ایچ او غصے سے بولا کیوں جناب !کیسے نہیں ہوتی میں نے کئی بار پڑھی ہے۔لی جئے بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ہوتے ہیں ایسے لوگ جنہوں نے اپنے اوپر حلال کو حرام کر رکھا ہوتا ہے۔ مگر ہائے ہائے مجھے اپنے دوست اظہار شاہین یاد آئے، کہنے لگے شاہ صاحب میں نے وہ وقت بھی دیکھا جب حرام حلال ہو جایا کرتا ہے مگر میں نے پھر بھی رشوت نہیں لی۔ان کے اس فقرے نے میرے دل میں ایسا گھر کیا کہ ان کی تطہیر ان کی باتوں سے جھلکنے لگی۔ ان کا ایک پیارا سا شعر آپ کو پڑھا دوں: تم کسی راستے سے آ جانا میرے چاروں طرف محبت ہے اشفاق احمد نے تو باقاعدہ اپنے ناول میں حرام کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کے اثرات سے کوئی بچ نہیں سکتا۔میں نے وہ ناول پڑھ رکھا ہے اور اس میں اسے بڑی منطق اور دلیل سے ثابت کیا ہے، ویسے تو ہمیں بتایا گیا ہے کہ خیر اور شر ہر صورت میں اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ بس دیر سویر ہو جاتی ہے مگر یہ طے ہے کہ باطل کو مٹ جانا ہے۔ مگر وہ شیطان جو ہمارے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور ہماری رہنمائی فرماتا ہے ۔ بندے کی مت ہی مار دیتا ہے ۔ اب تو خیر رشوت کا تصور ہی نہیں چائے پانی بھی نہیں بلکہ ریٹ ہیں۔ جائز کام بھی ناجائز انداز میں ہوتا ہے اور اسے مجبوری کہہ دیا جاتا۔ تبدیل کون کرے۔عمران خاں کی مثال سامنے ہے کہ وہ بھی سرنڈر کر گئے کوئی سیدھے انداز میں نہ الیکشن لڑ سکتا ہے نہ جیت سکتا ہے اور پھر اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آپ کے اعمال ہی آپ کے حاکم ہیں۔ اچھے آدمی کو تو کوئی لفٹ نہیں دیتا۔ مجھے یاد آیا میں تو سکول کھلنے کے حوالے سے لکھنے بیٹھا تھاسب سے بڑا نقصان اس عہد میں یہ ہوا کہ لوگوں کا حکمرانوں سے اعتماد اٹھ گیا ابھی میرا ایک دوست جو ٹی وی فنکار اور کیمرہ مین ہے۔ اپنا دکھڑا سنا رہا تھا عامر شاہ کے بچوں کو اسلام آباد میں داخلہ ملا۔ وہاں اس نے گھر کرایہ پر لیا لاک ڈائون آ گیا تو ایک ماہ بعد کے بعد گھر چھوڑا سامان ٹرک میں رکھا اور واپس لاہور آ گیا اب دوبارہ کرائے پر مکان ڈھونڈنا اور دوسرے لوازمات لیکن سب سے بڑا مسئلہ وہ یہ بتانے لگا کہ پتہ چلا ہے کہ یہ سب ڈرامہ ہے یہ لوگ ایک دو ہفتوں کے بعد سکول دوبارہ بند کر دیں گے۔ اس خدشے نے اس کو شدید پریشان کر رکھا ہے کہ ایک مرتبہ پھر نقل مکانی۔ یہ کہ کوئی آسان کام نہیں کوئی کہاں تک اخراجات کرے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کا خدشہ درست ہے مگر آج ہی میں پڑھ رہا تھا کہ اسلام آباد میں کچھ بچوں کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور وہ ادارہ سیل کر دیا گیا ہے۔ یقینا اس میں حکومت بھی بے بس ہے لیکن لوگ بری طرحم متاثر ہورہے ہیں۔ یہ اضافی اخراجات وہ کہاں سے لائیں گے۔ مہنگائی نے ویسے ہی بھرکس نکال رکھا ہے۔ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بچوں کے لئے ماسک سینیٹائزر وغیرہ کا خرچہ والدین پر مزید بڑھ گیا ہے۔والدین بہت پریشان اور بچے بھی سکول جانا نہیں چاہتے کہ فارغ رہنے کے عادی ہو گئے ہیں مگر اتنے سمجھدار ہیں کہ ایک کہہ رہا تھا میں نے ایک دفعہ زور سے کلاس میں کھانسنا ہے تو دو ہفتے کی چھٹی مل جانی ہے۔ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے ہیں اب استاد بھی معلوم نہیں پڑھانے کے تھوڑے بہت عادی رہے ہیں یا نہیں کہ انہوں نے تو تاحال کوئی احتجاج بھی نہیں کیا کہ بچوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ سکول کالج کھولے جائیں پرائیویٹ سکولوں کا عملہ ضرور بے تاب تھا اور سراپا احتجاج کے ان کا کاروبار بند ہو رہا تھا۔ سب تو مفت کی فیس نہیں دے سکتے تھے۔ آخر میں استاد شاعر باقی احمد پوری کا تازہ شعر: ہم بگولوں کے ساتھ چلتے ہیں خاک اپنی اڑانا ہوتی ہے