برسوں پاکستان پر آہنی گرفت کے ساتھ حکمرانی کرنے والے جنرل ایوب خان نے اقتدار چھوڑا تو اسلام آباد کے ایک معمولی مکان میں رہائش اختیار کرتے ہوئے گمنامی کی زندگی میں گم ہو گئے ۔ پاکستان کو دو لخت اور افواجِ پاکستان کو ہزیمت سے دوچار کروانے میں کلیدی کردار کرنے کے بعد بھی جنرل یحییٰ خان بمشکل اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ تاہم بقیہ زندگی انہوں نے بھی اپنے گھر میں خاموشی کے ساتھ گزاری۔ جنرل ضیاء الحق کے حق میں ایک طرح سے بہتر ہی ہوا کہ وہ وردی میںملبوس ہی جہانِ رنگ وبو سے کوچ فرما گئے۔ جنرل اسلم بیگ اور بعد ازاں جنرل حمید گل کو دورانِ ملازمت خوش فہمی لاحق ہوئی کہ وہ عوام میں بہت مقبول ہیں۔ چنانچہ ہر دو نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی اپنی سیاسی جماعت بنالی۔دونوں کی سیاسی جماعتوں کا انجام ہمیں معلوم ہے۔برسوں بعد فیس بک پر لاکھوں مداحوں کے اصرار پر جنرل مشرف دبئی کی عافیت کوچھوڑ کر انتخابات میںحصہ لینے پاکستان چلے آئے تھے۔حقائق سے سمجھوتہ کر لیتے تو غالب امکان یہی ہے کہ آخری سانسیں اپنی سر زمین پرہی لیتے۔ بہت بہتر ہو تا ہمارے جنرل باجوہ اگر گمنامی کی زندگی نا سہی ، خاموشی ہی اختیار کر لیتے ۔ حال ہی میں ایک صحافی کو دیا گیا انٹرویو جنرل صاحب کی گمنامی میں بسر کرنے کی ان کی اپنی اُس خواہش سے مطابقت نہیں رکھتا کہ جس کا اظہار انہوں نے اپنے آخری خطاب میں کیا تھا۔ اگرچہ اپنے اس خطاب میں انہوں نے سیاست میں دخل اندازی کا بے وقت ’انکشاف‘ بھی کیا، تاہم اگرمزید ’اعترافات ‘ اور’ انکشافات‘ کا سلسلہ ادھر ہی موقوف کر دیا جاتا تو کیا ہی بہتر ہوتا۔ سال 2014 ء میں جنرل راحیل شریف اپنی مقبولیت کے بامِ عروج پر جب کہ وزیرِ اعظم نواز شریف ناموافق عوامی ردعمل کا شکار تھے۔ ایک شام ایک ٹی وی ٹاک شو میں میزبان نے اپنے پروگرام کے آغاز میں ہی ناظرین کورائے دہی کی دعوت دیتے ہوئے سوال کیا کہ وہ نواز شریف اور جنرل راحیل شریف میں سے کس کو زیادہ مقبول لیڈر جانتے ہیں۔رائے دہی کا سلسلہ ٹی وی سکرین پر فلیش ہونا شروع ہوا تو دس پندرہ منٹوں کے بعد ہی مقبولیت میں موازنے کا گراف سکرین سے ہٹاتے ہوئے گفتگو کا رخ کسی اور موضوع کی جانب موڑ دیا گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام قومی ادارے سے روائتی طور پر انسیت رکھتے ہیں۔چنانچہ اسی نسبت سے ادارے کے سربراہ کو بھی قدر کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں۔حالیہ مہینوں میں فکری دیوالیہ پن کا شکار نظر آنے والے ہمارے ’جمہوریت باز دانشوروں ‘ کو پاکستانیوں کے اس رویے پر لاکھ اعتراضات ہوں ، حقیقت بہرحال یہی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی آرمی چیف کی مقبولیت کا مقابلہ کسی مقبول سیاسی رہنماء سے کرنا ہر گز قرینِ انصاف نہیں۔ ریٹائر منٹ کے بعد تو ہر گز نہیں۔ جنرل باجوہ جس قدر جلد اس حقیقت کا ادراک کر لیں ،بہتر ہے۔ اپریل2022ء اور اس سے کچھ پہلے کے حالات کے پیشِ نظر اندازے کی جو غلطی ہوئی، احساس ہو جانے پر بہتر ہوتا کہ اگر مداوا ممکن نہیں تھا تو خاموشی کی راہ اپنائی جاتی اورغیر وابستگی کو ترجیح دی جاتی۔اس کے برعکس جس طرح ریاستی جبر کے ذریعے ایک انتہائی غیر مقبول اقلیتی بندوبست ملک پر مسلط رکھے جانے پر اصرار جاری رہا، ہم مانیں یا نہ مانیںاس کے نتیجے میں نا صرف ملک بلکہ خود ادارے کے لئے بے حد نا خوشگوار نتائج برآمد ہو ئے ہیں۔اگر کسی کوحالات کی نبض کو ٹٹولنا درکار تھا، تو پولیس کے دفاتر پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد سوشل میڈیا پرعمومی تاثرات دیکھ لیتا۔ دہشت گردوں کے خلاف سر پر کفن باندھ کرمیدانِ کارزار میں اترنے والے سیکیورٹی اداروں کو عوامی تائید کی ضرورت ایسے ہی نا گزیر ہے، جیسے کسی ذی روح کو زندہ رہنے کے لئے آکسیجن درکار ہوتی ہے۔دوسری طرف دیکھنا یہ ہے کہ ملکی معیشت آج، اپریل 2022ء کے مقابلے میں کہاں پر کھڑی ہے؟کیا آج خارجہ معاملات کی صورتِ حال عمران دورِ حکومت سے بہتر ہے؟ کیا ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں بہتری آئی ہے؟کیا پاکستانیوں کے آئینی ،جمہوری اورانسانی حقوق پہلے سے زیادہ محفوظ ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ دیکھنا ہے کہ ففتھ جنریشن جنگ میںہم کہاں کھڑے ہیں ؟ اگرہم سمجھتے ہیں کہ ان اور ان جیسے کئی دیگر سوالات کے جوابات عمومی طور پر حوصلہ افزاء نہیں ہیں تو ہم ضرور یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس قومی ابتری اور تنزل کیلئے عوام کی ایک بڑی تعداد کس کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے۔بہتر ہوتا جنرل باجوہ اب خاموشی اختیار کرتے۔ ادارے پر سیاسی معاملات میں دخل اندازی کے الزامات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم اسی انٹرویو میں جنرل صاحب نے جو دوسرا مبینہ’انکشاف‘کیا ہے، وہ نا صرف یہ کہ غیر معمولی ہے ، ہولناک ہے ،بلکہ ہم جیسوں کے لئے حوصلہ شکن،مایوس کن اور افسردہ کر دینے والا ہے۔سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے سیاسی مخالفین، صحافیوں، ججوں اور دیگر کی پرائیویٹ گفتگو اورذاتی اعمال کی خفیہ ریکارڈنگ کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم کسی پرائیویٹ فرد ،گروہ یا ایک سیاسی جماعت کی طرف سے شہریوں کی ذاتی گفتگو یا ’پرائیویٹ لمحات‘ کی خفیہ آڈیو یا ویڈیو ریکارڈنگ اور اس غیر قانونی عمل کے ذریعے حاصل کئے گئے موادکا اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے دھڑلے سے استعمال ہم نے پہلی بار مریم نواز کی معروف پریس کانفرنس میں ہی دیکھا۔ انہی دنوں میں محترمہ نے یہ ’انکشاف‘ بھی کیا کہ انکے پاس کئی دیگر اہم شخصیات کی ’ریکارڈنگز ‘بھی موجود ہیں۔ بعد ازاں محترمہ کی خود اپنی پریشان کن آڈیو ریکارڈنگزکے ساتھ ساتھ ان کے کئی قریبی ساتھیوں کی ناگفتہ بہ ویڈیوز سامنے آئیں تو انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ کون ہے جو غیر قانونی طور پر یہ کام کر رہا ہے؟ حالیہ مہینوں میں عمران خاں اورہمارے موجودہ وزیرِاعظم کی ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوتے ہوئے اپنے مصاحبین سے پرائیویٹ گفتگوتک ’لیک‘ ہوئی ہے۔ حال ہی میں عمران خاں سے متعلق خفیہ ’ریکارڈنگز‘ کا تو جیسے سیلاب امنڈ آیا ہو۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایک دوسرے کو ننگا کرنے کا مکروہ کاروبار اس قدر عروج پر ہے کہ دنیا کی کسی مہذب ریاست کے اندر اس کی ہم پلہ مثال ڈھونڈنا مشکل ہے ۔بدقسمتی سے انگلیاں بالعموم خفیہ اداروں کی طرف ہی اٹھتی ہیں۔تاہم سیاست دان اس غیر قانونی اور بسا اوقات غلاظت کی حدوں کو پار کرتے ہوئے مکروہ دھندے کے فروغ سے بوجہ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔تمام سیاسی پارٹیوں میں ن لیگ ایک ایسی جماعت ہے جسے اپنا ماضی اورحال کریدتے ہوئے خود احتسابی اورsoul searching کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔اس سب کے بیچ بہت بہتر ہوتا کہ ہمارے جنرل باجوہ ’اعترافات‘اور’انکشافات ‘ کی بجائے اگر گمنامی نہیں، تو کم از کم خاموشی کی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے۔