آخر کو ایک ہی خیال دامنگیر ہے‘ کیسے بچا جائے؟ وبا کا آخری سرا کیا ہے؟ کس کس پر یہ بلا ٹوٹے گی اور کب تک ،یہ بے یقینی اور کب تک یہ مایوسی؟ ہر طبقہ خیال اور ہر طبقہ عمر اپنی اپنی سی کئے جا رہا ہے۔ طے شدہ حقیقت ہے کہ ایک وبال ہے‘ عذاب ہے‘ تنبیہ ہے۔ واپس لوٹنے کا اشارہ ہے۔ برائی سے توبہ کا حکم ہے۔ بے حیائی سے کنارا کرنے کی ہدایت ہے۔ قوموں کو جگانے کا آسمانی اعلان ہے۔ انسانوں کی پہاڑوں جیسی گھنائونی خطائوں اور دل دہلا دینے والے حیوانی گناہوں کا آسمانی حساب ہے۔غفلت کے پردے تو پہلے بھی تھے مگر اب مزید موٹے ہوتے جا رہے ہیں ،جس تریاق سے علاج ممکن تھا وہ ابھی علاج کاروں کے پردہ خیال پر ابھر رہی تھیں۔ اس سب سے کوئی ظاہر علاج بھی دریافت نہیں ہو پا رہا ہے۔ انسانی بدن ہو یا روح‘ جب سقم زدہ ہو جائے تو ایمان کی قوت اور یقین کی مضبوطی سے شفاء کا راستہ نصیب ہوتا ہے۔ ہاں سب کو شفاء درکار ہے مگر ایمان اور یقین کا سامان بری طرح سے متاثر ہے۔ عوام و خواص کا ذریعہ علم و معلومات یہی میڈیا ہے۔ سرکاری میڈیا‘ خود پسندوں اور مفادات کے محافظین کے زیر اثر معلوماتی مراکز‘ لوگوں کی اپنی پسند پر مبنی غیر محتاط گفتگو اور بے ہودہ تصاویر کی اشاعت، ان کے اپنے متحرک موبائل ،یہ سب غفلت بے یقینی اور انسانی ضرورت سے غیر متعلقہ خیالات کی فراوانی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ وہی جنسی بے راہ روی‘ نیم برہنہ بدنوں کی اشتہار بازی، آنکھیں جھکانے والے بے ہودہ متحرک تصویری مناظر اور خبر رساں اداروں پر ایک نہیں کئی انداز میں جو پردہ سیمیں پر حیوانوں سے بدتر انداز برہنگی کی نمائش کرتے ہیں۔ ایک عرصے سے ڈھٹائی ہے‘ کون روکے اور کون نصیحت کرے‘ ناصحین پر تو ملامت کا اور تنقید کا ایک طومار کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک خطائے مسلسل ہے جو قومی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر جاری ہے اور اس عذاب کے عالم میں بھی بے حیائی کے اس فروغ پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ حکومت اور حکومت کے کارندے قوم کی نمائندگی کا دعویٰ رکھنے والے‘ کرسی کی کھینچ تان کے سب رسی کھینچ اور ٹانگ اڑائو لبادہ قیادت میں مست بس مست مست ہیں۔ انسانیت اپنے درجے سے اتر تک حیوانیت کو شرما رہی ہے۔ اسی لئے فطرت اب عالم آدمیت سے اس کے گرے ہوئے مقام کے مطابق سلوک کر رہی ہے۔دنیا کے ہر خطے میں چیخ و پکار ہے۔ بڑی طاقت ہونے کا دعویٰ کرنے والے اب آنسوئوں سے رو رہے ہیں کہ کچھ خدا سے عرض کرو۔ دعائیں مانگو۔ ٹیکنالوجی کی دنیا‘اسلحے کے تاجر انسانوں کی عزت اور زندگی کا کھلواڑ کرنے والے اب عقل و شعور پر سکتہ محسوس کر رہے ہیں۔ ٹرمپ چلا اٹھا کہ دعا کرو۔ چھٹی طاقت چین کی قیادت خدائی راستے کی تلاش کی تلقین کر رہی ہے۔ دنیا خدا کو تلاش کر رہی ہے کہ وہ قادر و تدبیر اعلیٰ کل ہستی ہے۔ وہ اپنی رحمت سے اس بلا کو ٹال دے۔مسلمان کی عزت کعبتہ اللہ کی عزت سے بڑھ کر بیان کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی عزت مسلسل کشمیر میں پامال ہو رہی ہے۔ حرمت نسواں ہندو غنڈوں کی ہوس ناکی کے نیزے کی انی پر ہیں۔ ان کا رزق جبر و تشدد کا ماحول کھا گیا ہے۔ کوئی صدائے حمایت نہیں اٹھتی۔ مسلمانوں کی حکمرانی کی ڈوری ہاتھ میں تھامے لوگ انسانوں سے اور مسلمانوں سے محبت نہیں کرتے۔ ان کو اپنا کاروبار عزیز ہے۔ہند میں مسلمانوں کی عبادت گاہیں بند کی جاتی ہیں، شہید کی جاتی ہیں، نذر آتش کی جاتی ہیں۔ مزارات پر ناپاک وجود والے خنزیر چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ طاقتور مسلمان حکمران چپ سادھ جاتے ہیں۔ دہلی میں تین روز مسلسل آتشزدگی ‘ قتل عام اور آبرو ریزی ہوتی رہی۔ مشرکین کی سب سے بڑی سلطنت کے حکمران پوری سرپرستی کر رہے تھے۔ کہیں سے کوئی محمد بن قاسم نہ اٹھا۔دادرسی کے لئے کہیں سے کوئی روایتی حمایتی آواز بھی برآمد نہ ہوئی۔ غیظ الٰہی بڑھتا رہا۔یہ خاموشی فطرت کی رفتار انتقام کو بلاوا دیتی رہی یہ اب ایک عذاب کا دھاوا ہے اور بڑھتا جا رہا ہے۔ خدائے رحمان و رحیم کی رحمت بہرحال اس کے غضب پر غالب ہے۔ وہ اپنے بندوں پر بہرحال رحمت فرماتا ہے۔ لیکن کوئی قرینۂ طلب اورمعافی کا سلیقہ درکار ہے۔ احساس ندامت کی ضرورت ہے۔ غفلت کا اعتراف چاہئے۔ دل سے سچا احساس ندامت کہ نیت میں پوری شرمندگی اور شعور میں بندگی کا کامل احساس ہو۔ خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں پورے یقین کے ساتھ اعتراف جرم کہ اے خالق حقیقی یہ زندگی ‘یہ نعمتیں‘ یہ قوتیں اور یہ اختیار تیرے عطا کردہ ہیں اور ہم تیرے بے بس‘ ضعیف اور غافل بندے، بہت شدید غفلت کے طوفان میں ڈگمگا رہے ہیں۔ تیری بارگاہ کے سوا اب کوئی پناہ نہیں بچی۔ ہم ہار گئے ہیں۔ تونے اپنے محبوب اعظم بنی آخر الزماںؐ کو ہمارے لئے رحمت اللعالمینؐ بنا کر بھیجا تھا۔ ہم نے اس رحمت اعظمؐ سے منہ موڑا۔ ہم نعمت عظمیٰ کے کفران کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ہم سے دامن رحمت چھوٹ گیا ہے۔ ہم قدر ناشناس ملت ہیں۔ ہم خیالات و عقائد میں بالکل کمزور ہو گئے۔ ہماری مذہبی قیادت ایک مرکز یعنی مرکز رحمت اللعالمین علی صاحبہ الصلوٰۃ واسلام سے بہت گریز پا ہے۔ یہ مرکز سے جدا ہو کر بہت سے فروغی اختلافات میں قوم کو الجھا رہے ہیں۔ اے مالک لم یزل سب قدرتیں ‘ سب قوتیں لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم کی تجلی عطا سے ہی نمو پاتی ہیں۔دین کا لبادہ اوڑھ کر منافقین ہمیں تیرے محبوب رحمت اللعالمین ﷺ سے جدا کرنے کے لئے اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ہمارے اعمال بہت ناقابل قبول‘ ہمارے ارادے ہی پست ہیں۔ ہماری نیتیں بے اصل اور بے قیمت ہو گئی ہیں تو اپنے بندوں پر رحمان و رحیم اور غفار الذبوب اور ستار العیوب ہے۔ بس ایک امید‘ ایک دائمی آس ،دائمی امید تیرے محبوبﷺ ہیںجنہیں تونے مومین کے لئے رئوف و رحیم بنا کر بھیجا ہے۔ ہم اس کا کلمہ پڑھتے۔ تیری وحدانیت کو اسی نام سے پہچانتے ہیں۔لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ وآلہ و بارک وسلم اس محبوب کاملہ اور اس پر درود تیری رحمت کی طلب کا آخری وسیلہ ہے۔ ہمیں شفا فرما دے۔ ہماری غفلت کو دور کر دے۔ ہمیں سچی توبہ کی توفیق دے۔ (آمین)