جہانگیر خان ترین ہم خیال گروپ کی تشکیل نے چند سوالات کو جنم دیا ہے۔یہ سوالات سیاسی نظام اور سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں۔سیاسی پارٹیوں سے کیا غلطیاں ہوتی ہیں کہ اُن کے اندر سے گروپ تشکیل پاتے ہیںیا اُن کی تشکیل کی جاتی ہے؟پاکستان تحریکِ انصاف ایک ایسی پارٹی ہے ،جس کے اندر سے کسی نئے گروپ کی تشکیل کا گمان تک نہیں تھا،اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے ہمیشہ اپنی جدوجہد کو سیاسی وسماجی تبدیلی سے جوڑا ہے۔عمران خان اور اُن کی سیاسی پارٹی کے بارے یہ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ روایتی سیاسی پارٹیوں سے مختلف ہے اور اس کے ذاتی مفادات نہیں ،بلکہ ملکی مفادات ہیں،مزید براں جو لوگ اس پارٹی میں شامل ہوئے ،وہ سب کے سب عمران خان کی سیاسی جدوجہد اور سماجی فلاح کے نظریے سے متاثر تھے۔ یوں یہ ایک ایسی پارٹی ہے جو سیاست کا ڈھب بدل کررکھ دے گی اور سماجی سطح پر ایسی تبدیلی آئے گی ،جس کی ضرورت ناگذیر ہوچکی ہے۔مگر یہ سیاسی پارٹی اپنے اقتدار کے آدھے عرصے کو چھونے میں ابھی کامیاب ہوئی تھی کہ اس کے اندر سے ایک گروپ تشکیل پاچکا ہے۔وزیرِ اعظم عمران خان کو معلوم ہے کہ یہ گروپ کیوں تشکیل پایاہے؟وہ یہ سمجھتے ہیں ،جس کا اظہار بھی کئی مواقع پر کرچکے ہیں کہ یہ سب مافیا کے مفادات کے پیشِ نظر ہورہا ہے۔دوسری طرف جہانگیر خان ترین نے یہ گروپ کیوں تشکیل دیا ؟کیا جہانگیر ترین اپنے خلاف ایف آئی اے کی انکوائری کو صاف شفاف بنانے کے لیے گروپ تشکیل دے کرسیاسی حمایت چاہتے ہیں یا پھر تحریکِ انصاف کے اندر اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن کو بحال کرکے پارٹی کے لیے ایک ناگذیر حیثیت اور اپنے مخالف گروپ کو پسپائی پر مجبور کرنا چاہتے ہیں؟نئے گروپ کی تشکیل میں وزیرِ اعظم عمران خان اور جہانگیر خان ترین کے مذکورہ تصورات دُرست ہوسکتے ہیں ،لیکن شاید معاملہ کچھ اورہے۔وزیرِ اعظم عمران خان کو اس وقت پارٹی کے اندر سے جن مشکلات کا سامنا ہے ،اس کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ عمران خان نے کبھی پارٹی بنانے پر اپنی توانائیاں صَرف نہیں کی ہیں۔مَیں اگر یہ کہوں کہ پاکستان تحریکِ انصاف ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک گروپ ہے اور اب اُس گروپ کے اندر سے چھوٹے گروپ الگ ہورہے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔دوہزار اَٹھارہ کے عام انتخابات میں افراد اور گروپ نے مل کر پی ٹی آئی کا ساتھ دیا اور یوں عمران خان وزیرِ اعظم بن گئے۔مثال کے طورپر جہانگیر خان ترین نے آزاد حیثیت میں جیتنے والوں کو ایک گروپ کی شکل میں پی ٹی آئی میں شامل کیا تھا ،وہی گروپ آج اپنی الگ شناخت کی کوشش کررہا ہے۔جو غلطی عمران خان سے پارٹی نہ بنانے کی صورت میں ہوئی ،وہی غلطی آج جہانگیر خان ترین کررہے ہیں ۔کسی بھی سیاسی پارٹی کی تشکیل کوئی سہل اَمر نہیں جبکہ گروپ کی تشکیل کسی بھی وقت سہولت کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔جہانگیر ترین کا جو اس وقت گروپ ہے ،آنے والے وقت میں یہ کسی اور کا بھی ہوسکتا ہے ،جیسا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے۔جس طریقے سے آج جہانگیر ترین گروپ کی تشکیل کی صورت میں اپنے لیے آسانی پیداکرنا چاہتے ہیں ، گزشتہ انتخابات میں عمران خان ایسا کرچکے ہیں۔جہانگیر ترین کے ساتھ جو لوگ اس وقت ہیں ،وہ زیادہ تر پنجاب اسمبلی سے وابستہ ہیں،ان ممبران کو عثمان بزدار سے مسائل ہوسکتے ہیں ،لیکن عمران خان سے نہیں ۔یوں موجودہ صورتِ حال میں جہانگیر ترین پنجاب حکومت کے لیے زیادہ مسائل پیدا کرسکتے ہیں اور آنے والے وقت میں یہ گروپ برقرار رہتا ہے تو دوہزار تئیس کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہاتھ سے پنجاب نکل جائے گا۔اس سب کا فائدہ پی ایم ایل این کو ہوگا۔ یہ وقت عمران خان اور جہانگیر ترین کے لیے بہت اہم ہے ۔دونوں کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ سیاسی گروپ ہی بناتے رہیں گے یا سیاسی گروپ سے آگے نکل کر کسی پارٹی کی بنیاد بھی رکھ سکیں گے؟اگر عمران خان نوے کی دہائی میں پارٹی کی بنیاد رکھ چکے تھے ،تو پھر دوہزار اَٹھارہ کے انتخابات میں الیکٹ ایبلز پر انحصار کیوں کیا تھا؟جہانگیر ترین نے بھی یہ تہیہ کرکیا ہوا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گروپ بناکر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے ،علاوہ ازیںجولوگ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے رہتے ہیں وہ کیونکر سیاسی و سماجی خدمات کا دعویٰ کرسکیں گے؟اور کسی ایک ہی شخص کے ساتھ بندھے رہ سکیں گے؟ دوہزار اَٹھارہ کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف ایک تیسری سیاسی قوت کے طورپر اقتدار میں آئی تو بہت سُوں کے دِلوں میں اُمید کی کرن جاگ اُٹھی تھی کہ ماضی کی دونوں پارٹیوں کی اِجارہ داری سے نجات ملے گی اور سیاسی نظام میں استحکام آئے گا،مگر یہ اُمید مختصر عرصہ میں ٹوٹ چکی ہے۔یہ اُمید کیوں ٹوٹی؟ سیاسی پارٹی نے خود کو سیاسی پارٹی منوانے میں ناکامی کا ثبوت دیاہے۔اس ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے ایک ایسی سیاسی پارٹی کی ضرورت ہے ،جو عام آدمی کی نمائندہ ہو،جن کے اُمیدوار عام لوگ ہوں ،جو سماجی تبدیلی کے شعور سے پوری طرح آگاہ ہوں ،جن کے بڑے بڑے مفادات نہ ہوں ،جن کے پاس آنکھیں ہوں ،لیکن اِن آنکھوں میں اندھی عقیدت نہ ہو۔اب سوال یہ ہے کہ ایسی سیاسی پارٹی کہاں سے آئے گی؟ ایسے لیڈر کہاں سے آئیں گے جو محض وزیرِ اعظم بننے اور اپنے خلاف انکوائری شفاف بنانے کے لیے گروپ پر انحصارنہ کریں؟اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گروپ ہمیشہ موجود رہتے ہیں ،ان میں شامل افراد کے سیاسی فوائد پورے ہوتے رہتے ہیں اور سیاسی پارٹی کمزور ہوتی رہتی ہے۔سیاسی پارٹیوں کے وجود سے چھوٹے چھوٹے گروہ کیونکر تشکیل پاتے رہتے ہیں ،اس پر سیاسی پارٹیوں کے اِجارہ داروں کو سوچنا ہوگا۔