بڑھتی ہوئی عمر نے میری آوارگی کو لگامیں نہیں ڈالیں، اس عمر میں آوارگی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے،اب تو روزانہ شام ہوتے ہی شرمندگی محسوس ہوتی ہے، احساس بھی ڈستا ہے کہ بہت ہو چکا، مگر یہ احساس بھی اگلے ہی لمحے دم توڑ دیتا ہے، خود کو احساس کی قید میں دیکھتا ہوں تو واپس آزادیوں کے اس جنگل میں گھس جاتا ہوں، جہاں سے واپسی مشکل ہوتی ہے،، یہ سب سوچتے سوچتے رات ڈھل جاتی ہے، اگلی صبح طلوع ہوتی ہے تو یہ سوچ کر تھوڑی سی نیند آجاتی ہے کہ آج کا دن تو ابھی تک پوتر ہے، ابھی تک کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی، یہ سب میرے لئے نیا نہیں، مجھے میرے احساسات نے ہی پروان چڑھایا ہے، جب تک احساس زندہ رہے آدمی بھی زندہ رہتا ہے۔ دو تین سال پہلے کی بات ہے، عمران خان کے اقتدار سے پہلے کی بات، شہر میں ایک عورت کو روتے ہوئے دیکھتا تھا، وہ در در جا کر انصاف مانگتی تھی، وہ کہتی تھی کہ وہ شادی شدہ تھی، اس کے بچے تھے، اسے ایک حاکم نے ڈس لیا، پھر وہ سب کو اپنی کہانی الف سے یے تک سنایا کرتی تھی، وہ بہت رویا کرتی تھی، سانولے رنگ کی یہ عورت ابھی پوری طرح مرجھائی نہیں تھی، وہ شاید موسم بہار کی واپسی کی منتظر تھی، مگر اس بات سے بے خبر تھی کہ خزاں جن پھولوں کو جڑوں سے اکھاڑ دیتی ہے وہ پھر کبھی نہیں مہکتے،ان کی مسکان ابدی نیند سلا دی جاتی ہے، اسے اجاڑنے والا سارے قاعدوں اور قوانین سے بالا تھا، اس کے لئے کوئی عدالت تھی نہ کوئی کچہری ، وہ عورت اچانک لاپتہ ہوئی اور پھر کبھی نظر نہ آئی ،شاید اسے اپنی شکست کا یقین ہوگیا ہوگا، جن معاشروں کے قاضی اور منصف چور بن جائیں ان کی رعایا بھی بے حسی کی چادر اوڑھ لیتی ہے، بے حسی کی چادریں کفن سے بھی جلدی میلی ہوجایا کرتی ہیں، زندگی صرف احساس کا نام ہے صرف احساس کا، قاتل حکمرانوں کے اس دیس میں میرے جیسے لوگ آوارگی بھی نہ کریں تو کیا کریں؟ جنہیں آوارگی بھی میسر نہیں وہ نہ جانے کیسے زندہ رہتے ہیں؟ میں جس عورت کی بات کر رہا ہوں وہ مجھے تین دن پہلے خواب میں ملی ،وہ قہقہے لگا رہی تھی اور کہہ رہی تھی اسے اجاڑنے والا اس کا سیاں پھر کوتوال لگ گیا ہے۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭ ابھی تو چھ مہینے بھی نہیں گزرے جب بہت سارے مرتے ہوئے لوگ اپنے آخری سانسوں کے ساتھ زندگی کی جانب واپس لوٹے تھے، لیکن نظر یہی آرہا ہے جیسے یہ سب لوگ پھر واپس قبر میں اترنے والے ہیں، یہ لوگ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ شاید سب کچھ بدل گیا ہوگا مگر شہر کے منصف اور قاضی نہیں بدلے، کبھی فتح کی ہوئی عورتیں اپنے بچوں سمیت صفحہ ہستی سے مٹا دی جاتی ہیں، کبھی حکمرانوں کی محبت میں انصاف کے کٹہروں میں برہنہ کی جاتی ہیں، اور اب تو مائیں بھی بچوں سمیت مقتل گاہوں میں پہنچائی جانے لگی ہیں، حاکمین مانتے ہیں کہ ان کے سپاہیوں نے ماں باپ کا انکی تیرہ سالہ بیٹی سمیت خون ناحق کیا ، مگر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس گھرانے کے ساتھ سفر کرنے والا چوتھا آدمی دہشت گرد تھا، وہ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مکمل غلطی ہوئی، کہتے ہیں، غلطی تو ہوئی مگر آدھی۔ مگر یاد رکھا جائے یہ حکومت آگے نہیں جائے گی پورا سچ بولے بغیر،،،، قانون کے رکھوالوں نے اگر چار قتل کئے ہیں تو چار ہی کئے ہیں، اگر تین لوگ دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں تو چوتھا کیوں نہیں؟ اگر چوتھا دہشت گرد تھا تو باقی تین کیوں نہیں، دہشت گردی کی جنگ میں سالہا سال سے پسنے والی قوم کو کوئی وزیر با تدبیر کوئی حاکم کوئی منصف اپنا سبق نہیں پڑھا سکتا، حکمران طبقات کو پورا سچ بولنا پڑے گا یا اپنا بوریا بستر گول کرنا ہوگا، قوم جانتی ہے کہ دہشت گرد کون ہیں؟ اور حکمران طبقات میں کون کہاں کھڑا ہے۔۔ دہشت گردی کے حمام میں کون کون ننگا ہے یہ بھی سبھی جانتے ہیں۔ سبھی بائیس کروڑ لوگ۔ ٭٭٭٭٭ مجھے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی تقریر نے بہت تڑپایا، وہ ایک ہی دن ہائیکورٹ میں اپنی درخواست ضمانت بھی دائر کر رہے تھے اور قوم کا غم بھی بٹا رہے تھے، مریم نواز کا سارا دھیان باپ کے دل کی بیماری کی مشہوری پر مرکوز رہا، حمزہ شہباز نے بھی فلمی ڈائیلاگ خوب بولے، پیپلز پارٹی کی قیادت اور اس کے جیالوں کو بھی وقت نہ ملا کہ وہ سانحہ ساہیوال کے متاثرہ خاندان کے احتجاج میں ہی شامل ہوجاتے، میں بات کر رہا تھا پنجاب میں سب سے زیادہ مدت تک حکمرانی کرنے والے جناب شہباز شریف صاحب کی، موصوف پارلیمنٹ میں عوامی احساسات کی ترجمانی فرما رہے تھے، کہہ رہے تھے، ،،ساہیوال میں ظلم اور بربریت کے پہاڑ توڑے گئے، ہم وزیر اعظم عمران خان کو چین سے جینے نہیں دیں گے،موصوف یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ان کے دور میں رونما ہونے والے ایسے واقعات پر عمران خان سیاست کیا کرتے تھے،ایسی سفاکی کیوں کی گئی؟ ہمارے دور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن اور قصور میں زینب کیس پر سیاست کی گئی،، شہباز شریف نے اس سنگین واقعہ پر اور بھی بہت کچھ کہا،،،،، یہ سب وہ شخص کہہ رہا تھا جس نے لاہور اور پنجاب میں پولیس گردی خود شروع کرائی، جو بانی ہے پولیس گردی کا۔۔۔ کیوں، جناب شہباز شریف صاحب، کیا یہ سب جھوٹ ہے، میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ سانحہ ساہیوال کے قاتل پولیس اہلکار بھی آپ کی یا آپ کی حکومت کے کسی وزیر کی سفارش پر بھرتی کئے گئے ہوں گے۔ پولیس گردی کے واقعات پر ناولوں کے ناول لکھے جا سکتے ہیں لیکن یہاں ہم ہے پولیس گردی کے تازہ ترین واقعہ پر ہی بات کرتے ہیں ، جس سے وزیر اعظم عمران خان کو بھی قطعی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا،، ہاں، جناب عمران خان صاحب ! اگر یہ واقعی اسلامی ریاست ہے یا آپ اسے مدینہ والی ریاست بنانے جا رہے ہیں، آپ کو اپنا سر قوم کے سامنے جھکانا پڑے گا، آپ کو ان چار افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی۔ عوام آپ سے پوچھتے ہیں کہ چار افراد کو قتل کرنے والی پولیس ٹیم کے سربراہ نے مقتولوں کے خلاف ہی پہلے پرچہ کیسے کٹوا دیا؟ کیا یہ ریاست کے خلاف دہشت گردی نہیں؟ موجودہ وزیر قانون جو لکھے ہوئے ڈائیلاگ میڈیا کے سامنے بولتے رہے انہیں اپنے اس غیر قانونی اقدام پر پشیمانی کیوں نہ ہوئی؟ حکمرانوں میں سے کسی ایک کو خیال تک نہ آیا کہ وہ کم از کم استعفی ہی پیش کر دے کوئی ایک بھی ایسا نہیں دکھائی دیتا جو انصاف بانٹ سکے؟ لاڈوں کے ساتھ لائی گئی یہ حکومت ہے یا علی بابا چالیس چوروں کا ٹولہ جو پیپلز پارٹی کے دور میں بھی اقتدار کے مزے لوٹتا ہے ‘ن لیگ کے دور میں بھی، دو کروڑ کی زبانی امداد کا اعلان کرنے والے با اقتدار ٹولے کا ایک چپڑاسی اور ڈرائیور بھی سوگوار خاندان سے تعزیت کیلئے نہ جا سکا۔ وزیر اعظم عمران خان کے پاس وقت تھوڑا اور کام زیادہ ہے، انہیں اپنے وزیر اعلی پنجاب کی وکالت اور ان کی ستائش سے باہر نکل کر حقائق کی دنیا میں آنا پڑے گا،اس وزیر اعلی کو قوم کے لاکھوں سلام جو مقتولین کے بچوں کیلئے سرخ گلاب لے کر اسپتال پہنچ جاتا ہے اور ان پھولوں کو سوئے ہوئے بچوں کے سرہانے رکھ کر فوٹو سیشن کرواتا ہے۔۔۔۔ سلام پنجاب کی اس پولیس کو جو اس سانحہ میں مارے جانے والے ڈرائیور ذیشان کے لواحقین کا احتجاج ختم کرانے کے بعد اسے القاعدہ کا دہشت گرد قرار دے دیتی ہے، سلام اس میڈیا کو جس نے عوام کو بے خبر رکھا کہ ذیشان نے لواحقین میں کس کس کو بے آسرا چھوڑا ہے؟اللہ اس ماں کے درجات بلند کرے جس نے شہادت دیتے ہوئے اپنے تین بچوں کو اپنی گود میں چھپا کر انہیں زندہ بچا لیا۔ یا اللہ ان تین بچوں کا تو ہی سہارا ہے ورنہ ہم لوگ تو خود اپنے بچے اپنے ہاتھوں سے مار دیتے ہیں۔۔۔ اے لوگو! کبھی زندہ بچ جانے والے تین بچوں سے یہ سوال نہ کرنا کہ ان پر کیا گزری؟ آج کا سب سے بڑا سچ یہ ہے کہ اگر اس سانحہ میں ماں اپنی تیرہ سالہ بچی کے ساتھ نہ مرتی اور وہ ماں اپنے تین بچوں کو نہ بچا پاتی اور اگر بچے نہ بولتے، اور اگر مارے جانے والے چاروں مرد ہوتے تو یہ واقعہ بھی دہشت گردی کے خلاف پولیس کا جہاد ہی لکھا جاتا۔