ادب کے ایک طالب علم کے طور پر میرا یہ فرض بنتا ہے کہ میں کھیلوں میں دلچسپی لوں۔ یہ کیا بات ہوئی۔ انگریزی ادب کے سر کے تاج شیکسپئر نے بڑے مزے سے کہا تھا‘ وہ دبلا پتلا ہے‘ اسے موسیقی سے دلچسپی نہیں۔ وہ کھیلوں کا دلدادہ نہیں(اس لئے) وہ خطرناک آدمی ہے۔ اقبال نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا ؎ حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا راز داں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا کیا خوبصورت تجزیہ ہے کسی شخصیت کا۔ کھیلوں اور موسیقی سے دور رہنے والوں کے اندر ایک طرح کی سختی اور تشدد پایا جاتا ہے۔ یہ میں کیا فلسفہ جھاڑنے بیٹھ گیا۔ اصل میں آج میں سیاست سے بچنا چاہتا ہوں کرکٹ پر لکھنے کا یہ کوئی مناسب موقع نظر نہیں آتا ۔یا تو اس دن لکھتا جب ہم نے بھارت سے مار کھائی تھی یا پھر ٹورنامنٹ کے اختتام پر بات ہو سکتی ہے ۔ سیاست پر نہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ پورا ہفتہ شور شرابے کا ہفتہ ہے۔ آل پارٹی کانفرنس ہو رہی ہے‘ بجٹ پیش ہو رہا ہے‘ حکومت کی ایمسنٹی سکیم اپنے انتہائی مرحلے پر ہے۔ بتائیں کوئی تحریک چلے یا نہیں مگر اعصاب کھچے ہوئے ہیں۔ کئی مقدمات بھی بیچ میں ہیں۔ ایسے میں ژولیدہ فکری کو فروغ دینے کا کیا فائدہ۔ انتشار میں مزید اضافہ ہی ہو گا ۔سوچا ذرا اس سے ہٹ کر چلو۔ کرکٹ نہ سہی تو کرکٹ جیسی بات ہی کرلو۔ جب پاکستان بنا تھا تو کھیل ہماری پہلی پہچان بنا تھا ۔جب ہماری ٹیم اوول کے میدان میں اتری تھی تو اسے انگریز پریس نے بچہ ٹیم یا بے بی ٹیم کا خطاب دیا تھا ۔اگلے روز انہیں اپنی زبان میں ایک نئے لفظ کا اضافہ کرنا پڑا۔ انہوں نے سرخی لگائی England fazaledیوں کہہ لیجیے کہ انگلستان کو فضل ہو گیا۔ فضل محمود نے 12وکٹیں لے کر پاکستان کی فتح کا راستہ ہموار کردیا تھا۔ فضل محمود اوول کا ہیرو کہلایا۔ ایک عرصے تک پاکستان کا کوئی بالر اس کا ہم پلہ نہ تھا۔ وہ ویسے بھی قوم کا ہیرو تھا۔ مجید امجد کی شہرہ آفاق نظم: کھلاڑیوں کے خود نوشت دستخط کے واسطے کتابچے لئے ہوئے کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں ڈھلکتے آنچلوں سے بے خبر‘ حسین لڑکیاں! مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اٹھے ابل پڑے الجھتے بازوئوں چٹختی پسلیوں کے پُرہر اس قافلے گرے بڑھے‘ مڑے بھنور ہجوم کے میں یہ نظم پڑھ رہا ہوں اور اس زمانے کی ساری کیفیتیں جاگ اٹھتی ہیں جب نہ ٹی وی تھا نہ کوئی اور تام جام بس ایک ریڈیو ہوتا تھا جس پر عمر قریشی اور جمشید مارکر جب انگریزی میں کمنٹری کرتے تھے‘ انگریزی نہ جاننے والا پورا مجمع سمجھ رہا ہوتا تھا ۔اس وقت دل توچاہتا ہے اس پوری شاہکار نظم کو درج کر دوں تاکہ ہم جان سکیں کہ اعلیٰ ادب کیسے کیمروں کے بغیر بھی لفظوں میں دل کی دھڑکنیں تک بند کر دیتا ہے۔ کسی عظیم شخصیت کی تمکنت حنائی انگلیوں میں کانپتے ورق پر جھک گئی تو زرنگار پلوئوںسے جھانکتی کلائیوں کی تیز نبض رک گئی وہ بائولر ایک مہ وشوں کے جمگھٹوں میں گھرگیا بیاض پر بصد غرورکلک گوہریں بھری حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں وکٹ گری پھرآخر میں ایک عظیم تمکنت والا بند ۔اس وقت صرف یہ بتانا تھا کہ جدید میڈیا کی چکا چوند کے بغیر بھی ہمارے ہیرو ہوا کرتے تھے ۔فضل محمود ہی نہیں ایک حنیف محمد بھی تھا جسے تاریخ میں پہلی بار لٹل ماسٹر کا خطاب دیا گیا۔ جب وہ تین دن ویسٹ انڈیز کے بائولروں کے سامنے کھڑا رہا اور پہلی ٹرپل سنچری بنا کر بریڈ مین کا ریکارڈ توڑنے کے قریب ہی تھاوہ دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنا۔بریڈ مین نے کہا کہ حنیف ایسا مکمل بیٹسمین ہے کہ جب وہ آئوٹ بھی ہوتا ہے تب بھی اس نے وہ بال درست کھیلی ہوتی ہے ۔ عرض کیا نا کہ یہ لوگ ٹی وی سے پہلے کے زمانے کے تھے اور کیا لوگ تھے کہ برسوں دلوں میں زندہ رہتے تھے۔ کرکٹ چھوڑو ہاکی ہمارا قومی کھیل تھا ۔اس وقت انڈیا کی دنیائے ہاکی پر حکمرانی تھی۔ دراصل یہ وہ انڈیا تھا جو تقسیم سے پہلے ہم بھی تھے۔ تقسیم کے بعد ہاکی میں برتری کا مقابلہ شروع ہو گیا۔ پہلے ہم سلور میڈل جیتے‘ پھر ہم نے بھارت کو چت کر دیا۔ ایک نوزائیدہ ملک نے ہاکی کی عظمتوں کی میراث اپنے نام کر لی ؎ روما کے میدان میں گونجا یہ اعلان ہاکی فائنل میچ میں جیتا پاکستان روم اولمپک کے بعد ہم برسوں اس میدان پر چھائے رہے۔ کیا کیا لیجنڈ کھلاڑی پیدا ہوئے۔ جب آسٹروٹرف آئی تو پاکستان کے پاس یہ سہولت نہ تھی ہم غریب ملک تھے یہ مہنگی چیز تھی ہم نے بیونس آئرس جانا تھا۔ لندن میں ہفتہ دس روز کے لئے رکے اور معرکہ مارکر لوٹے۔ ادھر ارجنٹائن اور برازیل وغیرہ میں ان دنوں فٹ بال میں پیلے کا نام گونجتا تھا ایک غیر معمولی کھلاڑی۔ وہاں کے پریس نے پاکستان کو یہ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا ۔ کہ پاکستان ٹیم میں تو کئی پیلے ہیں ‘ہاکی کے پیلے‘ یہ ٹیم ان سے بھری پڑی ہے۔ سیمع اللہ ‘ شہناز شیخ اصلاح الدین‘ 11کے 11کھلاڑی غیر معمولی تھے مجھے آج تک بھی سب نام یاد ہیں یہ بھی یاد ہے کہ کون کس پوزیشن پر کھیلتا ہے۔ ایک ایک پوزیشن کے لئے تین تین چارکھلاڑی موجود ہوتے ۔ایک سے ایک بڑھ کر رشید جونیئر‘ حنیف خان‘ حسن سردار کیا کیا سنٹر فارورڈ تھے۔ آج تو مجھے کسی کھلاڑی کا نام تک یاد نہیں ۔یہ وہ دن تھے جب سٹیڈیم جا کر میچ دیکھنے کا ایک مزہ ہوتا تھا۔ حسن سردار کا وہ تاریخی گول میں نے دیکھا ہے جب اس نے سنٹر سے بال پکڑی اور پوری ٹیم کو کاٹتا ہوا اکیلے گول تک جا پہنچا۔ پورا سٹیڈیم پنجوں کے بل کھڑا ہو گیا۔ پھر حسن سردار نے یہ کارکردگی بمبئی میں دہرائی توبھارتی پریس چیخ اٹھا کہ صرف کوئی دھیان چند ہی ایسا کر سکتا ہے۔ دھیان چند تقسیم سے پہلے کا ایک نامور کھلاڑی تھا ہٹلر نے اسے کھیلتے دیکھا تو ہاکی چیک کی کہ بال کیسے ہاکی کے ساتھ چیک ہی جاتی ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے پھر ہاکی کو زوال آیا اور ایسا زوال آیا کہ اب ہم نہ تین میں نہ تیرہ میں‘ حالانکہ ہم آج بھی ہاکی کو قومی کھیل کہتے ہیں۔ میں کہا کرتا تھا جو کرکٹ ہاکی اور سکواش سے واقف نہیں وہ پاکستان ہی نہیں۔ سکواش میں ہم نے دنیا میں حکمرانی کی ہے۔ ہاشم خاں ہمارے پہلے ہیرو تھے۔ جنہوں نے برٹش اوپن چھ بار جیت کر ریکارڈ قائم کیا پھر ان کے بھائی اعظم خاں نے چار بار اور کزن روشن خاں نے ایک بار میچ جیت کر تاریخ رقم کی۔ اس کے بعدمصری چھا گئے مگر نمبر دو ہم ہی ہوتے حتیٰ کہ آسٹریلیا کے ہنٹ کا دور آیا جس نے ہاشم خاں کا ریکارڈ توڑا مگر ایک پاکستانی نے یہ ریکارڈ تو ڑکر اس کھیل میں دنیا میں پاکستان کی بالادستی کو دوبارہ بحال کیا اس کھلاڑی کا نام جہانگیر خاں ہے۔ جہانگیر سے یہ علم جان شیر خاں نے سنبھالا ان دنوں دنیا کے پہلے پانچ چھ کھلاڑی پاکستانی ہوتے تھے ۔ قمر الزماں‘محب اللہ سینئر ‘ مقصود احمد ۔میں کوئی ایک آدھ نام بھول بھی رہا ہوں دنیا ہمیں احترام کی نظر سے دیکھتی تھی اور آج تک دیکھتی ہے۔ ان تین کھیلوں ہی میں نہیں سنوکر میں بھی ہم میدان مارتے رہتے ہیں۔ بہرام آواری نے کشتی رانی میں دھاک بٹھائی ۔ایک زمانے میں رود بارانگلستان کو کم سے کم وقت میں پار کرنے کاریکارڈ پاکستان کے پاس تھا۔ بروجن داس مشرقی پاکستان سے ہمارے ہیرو تھے۔ تیز دوڑنے میں عبدالخالق کا نام گونجتا تھا۔ عبدالرزاق رکاوٹوں والی دوڑ کے ہیرو تھے۔ نیزہ بازی‘ گولہ پھینکنے‘ جانے کس کس کھیل میں ہم اپنے کھلاڑیوں پر فخر کرتے تھے۔ محمد نواز‘ محمد اقبال۔ ہاں ایک یونس خاں بھی تو آیا تھا کم وسائل کے باوجود ہم نے کھیل کے میدان پر حکمرانی کی۔ میں نے کہا یہ لوگ ہماری پہچان تھے اب میں موسیقی کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا۔ بات بہت دورتک چلی جائے گی۔ ہم ایک نارمل قوم تھے اس لئے اچھا کھیلتے تھے اور ہمارے موسیقار روح کو غذا فراہم کرتے تھے ۔ہم نارمل لوگ تھے ۔ہم سپورٹس مین سپرٹ بھی رکھتے تھے اور فنون لطیفہ کا اعلیٰ ذوق بھی۔ یہ سب کچھ ہم سے کیوں چھن گیا ہے ؟شاید ہم سے ہماری پہچان چھن گئی ہے۔ اب تو کھیل بھی کاروبار ہو گیا یا شوبز اور موسیقی ۔کسی قوم کے زوال کی یہی بڑی نشانیاں ہواکرتی ہیں۔ اللہ نے ہمیں کیا عظمتیں عطا کی تھیں۔ ہم نے کیسا کفران نعمت کیا۔ اب بھگتو سیاست بازیوں کو۔ یہی نتیجہ نکلنا تھا آخر۔شکر ہے ہم بالکل وحشی نہیں ہو گئے کہ اندر سے ابھی وہ جذبہ مرا نہیں ہم زندہ قوم ہیں ‘اس لئے بار بارزندگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ وگرنہ یہ سیاست کی جوڑ توڑ ہمارا کیا حال کر دیتی۔