ریاستوں کی طاقت ان کی عسکری قوت نہیں ،اقوام کی ریاست سے غیر مشروط محبت اور وفاداری ہوا کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ملکوں کے زوال کا سبب دشمنوں کے حملے نہیں بلکہ اندرونی خلفشار اور معاشی انحطاط بنا ہے۔ معیشت کی تباہی کا باعث وسائل کی کمی کے بجائے حکمران اشرافیہ کی دولت کی ہوس اور ذاتی مفاد کا چلن ہوتا ہے۔ آج تیسری دنیا کے ممالک کی پسماندگی کی وجہ بھی وسائل نہیں بلکہ اشرافیہ کی کرپشن اور لوٹ مار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کے تقریباً دو ہزار چھ سو ساٹھ ارب روپے اشرافیہ پر خرچ ہو جاتے ہیں جو ملکی معیشت کا چھ فیصد ہے۔ یو این ڈی پی کی نائب سیکرٹری نے وزیر اعظم عمران خاں اور کابینہ کے ارکان سے ورچوئل ملاقات میں یہ اعداد و شمار ہی نہیں رکھے بلکہ پاکستانی رہنمائوں نے رپورٹ کو درست تسلیم کرتے ہوئے اقدامات کی یقین دہانی بھی کروائی ہے۔ یو این ڈی پی کے سابق ڈائریکٹر مارک آندرے نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ ملک میں تبدیلی بھلے سماجی ہو یا معاشی صرف اسی وقت آ سکتی ہے جب بااثر افراد، سیاست دان اور ملک کے دولت مند افراد قوم کے مفاد کے لئے قلیل مدتی، انفرادی اور خاندانی مفاد کی قربانی دیں گے۔ تحریک انصاف سماجی انصاف مساوات اور بدعنوانی سے پاک پاکستان کی تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی ۔عمران خان دھرنے کے دوران قوم کو مقروض نہیں غریب ممالک کو قرض دینے والے پاکستان کا خواب دکھلاتے رہے۔ اب اسے قوم کی بدقسمتی کہیں یا عمران خان کی بے بسی کہ انہوں نے حلف اٹھانے کے بعد اخراجات میں کمی کا آغاز تو وزیر اعظم ہائوس کی بھینسیں اور مہنگی گاڑیاں بیچ کر دیا مگر تحریک انصاف کی پنجاب حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلا کام اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا کیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب اسمبلی کے ممبران کی تنخواہیں سالانہ 11ارب 13کروڑ، سندھ اسمبلی کی سالانہ تنخواہ ساڑھے تین ارب، کے پی کے 2ارب 60کروڑ اور بلوچستان کے 65ارکان 10کروڑ روپے جبکہ قومی اسمبلی کے اراکین 12ارب 30کروڑ ہے اور سینٹ کے 104سینیٹرز 50کروڑ روپے قومی خزانہ سے وصول کرتے ہیں یہاں پر ہی بات ختم نہیں ہوتی ہمارے نمائندے اگر سالانہ تنخواہ کی مد میں 35سے 40ارب روپے وصول کرتے ہیں تو تنخواہ سے دوگنا مراعات وصول کر رہے ہیں جو تقریباً سالانہ 85ارب کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔صرف پنجاب اسمبلی ہی کیوں یہاں تو بجٹ دستاویزات کے مطابق ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس پر مجموعی طور پر ایک ارب 77 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوتے رہے ہیںمالی سال 2015 -2016ء کے دوران ایوان صدر نے ملازمین کی تنخواہوں سمت مختلف مدوں میں 91 کروڑ 84 لاکھ روپے خرچ کیے گئے۔ جن میں ایوان صدر کی مرمت اور دیکھ بحال کے کاموں پر دو کروڑ 22 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ قوم کے نمائندے 85ارب روپے خرچ کر کے بھی اگر قومی مفاد میں فیصلہ کریں تو شاید گھاٹے کا سودا نہ ہو یہاں تو عہدکے کا فائدہ اٹھا کر صرف آئی پی پیز ہی میں 500ارب روپے کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ شاید پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کے لیے اکبر الہ آبادی نے کہا تھا: قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ جب قومی نمائندے ملکی خزانہ پر اپنا پیدائشی حق جتلائیں گے تو ان وزیروں مشیروں کے ماتحت کام کرنے والی افسر شاہی بہتی گنگا میں ہاتھ کیونکر نہ دھوئے گی یہ حکمرانوں کی ہی مہربانی اور مل بانٹ کر کھانے کا چلن تھا کہ سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں صرف پنجاب کی 56کمپنیوں میں اضافی تنخواہوں کی وصولی سے متعلق سماعت شروع ہوئی تو نیب پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ پنجاب کے 58سرکاری افسران نے اپنے محکموں سے تنخواہ وصول کرنے کے باوجود ان کمپنیوں میںاضافی فرائض انجام دے کر 52کروڑ 74ہزار روپے وصول کئے ۔جب لوٹ مار کا حساب شروع ہوا تو 34افسران نے رضا کارانہ طور پر رقم واپس کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی۔ ایک ایسا ملک جو اس وقت 32ہزار ارب روپے کا مقروض تھا اس ملک کے وزیر اعظم اور صدر کی تنخواہ بھی تین لاکھ سے زیادہ نہ تھی مگر سرکاری افسروں کو کمپنیوں میں 20لاکھ روپے تک تنخواہ دی گئی وہ بھی پاکستان میں پبلک سیکٹر انٹرپرائز ایسی کمپنیوںمیں جن کی گزشتہ دس سال کی کارکردگی انتہائی خراب تھی اور ان کا سالانہ خسارہ 400سے 500ارب تک بڑ ھ چکا تھاان کی کارکردگی بہتر بنانے کے نام پر جن افلاطون کو عالمی معیار کے مطابق تنخواہیں دینے کا فیصلہ کیا گیا ان کے آنے کے بعد بھی خسارہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتا گیا۔ ان کمپنیوں کے سربراہان جو دو لاکھ سے پانچ لاکھ روپے تنخواہ اور مراعات وصول کر رہے تھے ان کو بڑھا کر 10لاکھ سے 50لاکھ تک کر دیا گیا۔ مگر اس کے باوجود ان کمپنیوں کی کارکردگی بہتر نہ ہو سکی۔ اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے اپنی تنخواہ سے بھی 10گنا تنخواہ سرکاری ملازموں کی کیونکر منظور کر لی۔۔۔ تو اس کا جواب آج پاپڑ فروش اور بھلے بیچنے والوں کے نام پر اربوں روپے کی ٹی ٹیز کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔یہ حکمرانوں کی افسر شاہی پر نوازشات ہی ہوتی ہیں جو افسروں کو سیاستدانوں کو قوم خزانہ لوٹنے کے گر سکھانے کی ترغیب دیتی ہیں یہاں تک کہ پنجاب اسمبلی میں تنخواہوں کا بل حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے چند گھنٹوں میں متفقہ طور پر منظور کر لیا جاتا ہے جب آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہو تو وزیر اعظم عمران خان تو یہ کہنے پر مجبور ہوں گے ہی کہ حکومتی مشینری میں ہر جگہ مافیاز چھپے ہوئے ہیں اور خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں مان لیجئے وزیر اعظم ان مافیاز سے لڑ رہے ہیں اور قوم کو ’’گھبرانا نہیں ‘‘کا دلاسہ دے رہے ہیں مگر صرف نعروں اور دلاسوں سے بھوکے پیٹ کب تک بھر جا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے تین سال مکمل کرنے کے قریب ہے ان تین برسوں کی کارکردگی صرف عوام سے قربانی او صبر کا مطالبہ ہے ۔مرتضیٰ برلاس نے کہا ہے نا: خود رہبران قوم ہیں عیاشیوں میں گم ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے