ہمارے ایک معاصر کالم نگار نے ’’میں‘‘ کے بجائے ’’ہم‘‘ کے صیغہ میں لکھنے پر بہت سے اعتراضات کئے ہیں۔ چونکہ مثلاً ہم اکثر سوچتے ہیں‘ ہم نے کیا دیکھا وغیرہ تو اس لئے یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کی وضاحت کر دی جائے کہ ہمارے پرانے لکھنے والے مثلا ابن انشا، نصراللہ خاں یا مشفق خواجہ وغیرہ اگر ’’میں‘‘ کی جگہ ہم کا صیغہ استعمال کرتے تھے تو کیوں؟ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جن معاصر کالم نگار نے ہم کے صیغے کا مذاق اڑایا اور چوٹیں کی ہیں ان کی اپنی زبان اردو نہیں ہے یہ ان کی کرم نوازی ہے کہ وہ اردو میں لکھتے ہیں اور اسی لئے ان کے پڑھنے والوں کا حلقہ ملک گیر ہے انہوں نے لکھا ہے کہ اس فقرے میں کہ ہماری شادی ہو گئی۔ ایسا تاثر ملتا ہے کہ پورے اہل محلہ کی شادی ہو گئی انہوں نے اسی طرح کی کچھ اور مثالیں بھی دی ہیں جو دلچسپ ہیں۔ سوچنا چاہیے کہ پرانی تہذیب کے پروردہ اہل قلم ’’میں‘‘ یعنی واحد متکلم کے صیغے سے واقف ہونے کے باوجود جمعے کا صیغہ ’’ہم‘‘ استعمال کرتے تھے تو اس کی وجوہ کیا تھیں۔ ہر تحریر اور صاحب تحریر پر اپنے زمانے کی تہذیبی روایات اثر انداز ہوتی ہیں۔ قدیم تحریروں میں بلکہ بول چال میں بھی اگر ہم کے استعمال کا رواج تھا تو اس کی غالباً وجہ یہ تھی کہ ہمارا پرانا معاشرہ جڑا ہوا تھا۔ اجتماعیت اس کی روح تھی‘ انکسارو وضع داری کا مزاج شخصیت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ انانیت کے اظہار کو اورجا ، بے جا اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور دوسروں پر مسلط کرنے کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا اس لئے لکھنے والے بھی اپنی تحریر میں ’’ہم‘‘ ہی کا استعمال کرتے تھے بلکہ شاعری میں بھی یہی صیغہ مستعمل تھا۔ غالب کے اشعار میں اس کی مثالیں مل جائیں گی ؎ آج ہم ان سے پریشانیٔ خاطر اپنی کہنے جاتے ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں اور اس میں کیا شبہ ہے کہ غالب ایک نہایت خوددار اور آج کی زبان میں انانیت پسند تھے لیکن ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری ’’میں‘‘ کا صیغہ استعمال نہیں کیا ہے۔ مثلاً ؎ میری قسمت میں غم گر اتنا تھا دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے دلی کے لال قلعہ میں رہنے والے شاہزادے ہوں یا لکھنو کے بانکے تہذیبی سطح پر بول چال کی معاشرت میں وہ ’’ہم‘‘ ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ چنانچہ میرا من کی ’’باغ و بہار‘‘ ہو یا ہادی رسوا کا ناول’’امرائو جان ادا‘‘ ہو یا ڈپٹی نذیر احمد کا ناول’’فسانہ مبتلا‘‘ وغیرہ ان کے کردار بھی ’’ہم‘‘ ہی کے صیغے میں گفتگو کرتے ملتے ہیں یہ اسی تہذیب و معاشرہ کا تقاضا تھا جس میں رشتوں کا پاس لحاظ ‘ چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کا احترام پایا جاتا تھا۔ بیویاں شوہروں کے نام مارے ادب کے لینا پسند نہیں کرتی تھیں بلانا ہوتا تھا تو اجی سنئے کہہ کر بلاتی تھیں کہیں شوہر کا نام لینے کی مجبوری ہوتی تھی تو منے یا گڈو کے ابا کہہ کر اس ضرورت کو پورا کرتی تھیں۔ اس زمانے کی تہذیب ایک اکائی تھی۔ تمام رشتوں کی حدیں متعین تھیں۔ گھر زنان خانے اور مردانہ حصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان قدروں میں ٹوٹ پھوٹ تب شروع ہوئی جب مغربی تہذیب کا ہماری روایتی مشرقی تہذیب کو سامنا کرنا پڑا ۔ انگریز یا مغربی علوم کی قبولیت کے ساتھ ایک طبقے نے ان کی تہذیب معاشرت کو بھی اختیار کر لیا بول چال اٹھنے بیٹھے کھانے پینے حتیٰ کہ پہننے اوڑھنے کے طریقوں میں بھی انگریزوں کی تقلید کو ترقی کا ذریعہ سمجھا جانے لگا۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنی طنزیہ شاعری کے نشتر سے صورت حال کی مضحکہ خیزی کو نمایاں کر کے گویا بقول کسے چاقو سے گدگدی کی کوشش کی ؎ ان کی بیوی نے فقط اسکول ہی کی بات کی یہ نہ بتلایا کہاں رکھی ہے روٹی رات کی ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھرکا منہ نہ دیکھا کٹی عمر ہوٹلوں میں ،مرے ہسپتال جا کر اور وہ مشہور اشتہار تو کس کو یاد نہ ہوں گے جس میں انہوں نے مسلم عورتوں کے بے پردہ ہو جانے کو مردوں کی عقل پرپردہ پڑ جاناکہا ہے۔ایک ڈیڑھ صدی سے اس خطے میں مسلم تہذیب و معاشرت ایک تہذیبی بحران سے دوچار ہے جس کی کوئی مثال کسی مغربی ملک میں نہیں ملے گی۔ آپ کسی بازار کسی پارک یا ادارے میں چلے جائیں دو طرح کے مرد اور دو طرح کی عورتیں ملیں گی۔ ایک مغربی رہن سہن کو اختیار کئے ہوئے اور دوسرے مشرقی یا مذہبی شعائر کی پابندی کرتے ہوئے ملیں گے یہ فرق کوئی چھوٹا موٹا نہیں۔ دونوں طبقوں کے درمیان تہذیب و معاشرت کی خلیج نظر آئے گی اور جب فرق و امتیاز اس درجہ پہ ہو تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ان میں ٹکرائو اور تصادم کی صورت نہ ملے۔ یہ تضاد تعلیم میں‘ زبان میں‘ ثقافت میں حتیٰ کہ مذہبی تصورات میں بھی دکھائی دے گا۔ سالگرہ‘ ویلینٹائن ڈے‘ ٹائی کوٹ‘ انگریزی زبان کا استعمال‘ گھر کے اندر کی سجاوٹ بناوٹ ملنے ملانے کے آداب و طریقے ہر ہر معاملے میں یہ فرق و تضاد ایسا ہے کہ لگتا ہے کہ یہ دو جزیرے ہیں دریا کے وہ کنارے ہیں جو آپس میں کبھی نہیں مل سکتے ہیں۔ خود معاشرہ بھی منقسم ہے ایک عورت ہے سرتاپا برقع یا حجاب میں ہے دوسری طرف وہ عورت ہے جو بے حجاب ہے۔ مذہب اور ثقافت بحث ونزاع کے میدان بن چکے ہیں اور کوئی نکتہ اتفاق ایسا ہے ہی نہیں جس پر سب یکجا اور متفق ہو سکیں۔ جب معاشرہ اپنے ماضی سے کٹ جائے تو ہ خلا میں معلق ہو جاتا ہے یا پھر ابوالہول کا مجسمہ بن جاتا ہے جس کے دھڑ کا ایک حصہ حیوان کا اور دوسرا انسان کا ہے۔ نکتہ اتفاق کی گمشدگی کا سبب کچھ اور نہیں فقط یہ ہے کہ مغربی تہذیب اور مشرقی تہذیب میں کوئی قدر مشترک ہے ہی نہیں۔ مثلاً انگریز زبان میں مخاطب کے لئے صرف youکا لفظ ہے اردو میں ’’آپ‘‘ ’’تم‘‘ اور ’’تو‘‘ ہیں جن کا تعلق حفظ مراتب سے ہے۔ بڑوں کو آپ چھوٹوں کو تم اور بے تکلفانہ انداز کلام میں تو استعمال کیا جاتا ہے۔ انگریزی میں کیا چھوٹے اور کیا بڑے سب ’’you‘‘ ہیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تہذیبی مساوات ہے جو مغرب میں نظر آتا ہے مگر اس مساوات نے کیا گل کھلائے ہیں کہ نتیجے میں انا یعنی ’’میں‘‘ کی پرورش ہوئی ہے تمام تر اخلاقی خوبیوں کے باوجود ایک خود غرضی ہے جس کا مظہر خاندان کا ادارہ ہے جس میں والدین با لغ اولاد کو گھر سے الگ کر دیتے ہیں، پھر بڑھاپا ان کا اولڈ پیپلزہائوس میں گزرتا ہے جہاں وہی بچے جو الگ کئے گئے تھے کرسمس یا ایسے ہی کسی موقع پر پھولوں کا گلدستہ (بوکے) بھیج کر اپنی ذمہ داری سے نچنت ہو جاتے ہیں یہ ’’میں‘‘ جو انا بھی ہے اپنے ہونے کا احساس بھی اور اپنی ذات پر اصرار بھی جن تہذیب میں ’’ہم‘‘ مستعمل تھا ‘ اس لئے تھا کہ وہ اپنی ذات کی نمائش کو معیوب سمجھتے تھے آج ہمارے پاس ’’میں‘‘میرا کیرئر میری ترقی میرا مال میری جائیداد کی تکرار کے سوا کیا ہے اور معاشرہ میں اس ایک ہاہا کار کے علاوہ بھی کچھ سنائی اور دکھائی دیتا ہے۔؟