عرب ممالک کے ساتھ بھارت کے کاروباری روابط روز بروز گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے پاکستانی تحفظات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھارت کے ساتھ نہ صرف معاشی بلکہ دفاعی اور خفیہ کاری کے میدان میں بھی تعلقات کو غیر معمولی وسعت دی ہے بلکہ کئی ایک مطلوب افراد کو بھی بھارت کے حوالے کیاگیا، جنہیں بھارتی حکام مقبوضہ کشمیر میں سرگرم جہادی گروہوں سے وابستہ قراردیتے تھے۔ 2006 میں سعودی فرمان روا شاہ عبداللہ نے بھارت کا دورہ کیا اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ہمراہ ایک یاداشت پر دستخط کیے۔ جس کی بنیاد پر دونوں ممالک نے اگلے برسوں میں دوطرفہ تعلقات کو استوار کرنا شروع کیا۔بعدازاں دونوں ممالک نے دفاعی تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے اور اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کونسل تشکیل دی ۔چنانچہ دونوں ممالک میں انسداد دہشت گردی سمیت سیکورٹی تعاون میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ جس طرح عالمی اور علاقائی سیاست میں امریکہ اور برطانیہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ رہتے ہیں بلکہ اکثر امور میں یکساں پالیسی اختیار کرتے ہیں ۔ مشرق وسطی میں سعود ی عرب اور متحدہ عرب امارات عالمی اور علاقائی معاملات میں ایک دوسرے کے مفادات کا بھی تحفظ کرتے ہیں اور باہمی مشاورت سے ہر میدان میں پیش رفت کرتے ہیں۔ بھارت کے حوالے سے دونوں ممالک لگ بھگ یکساں پالیسی پر کاربند ہیں۔ اس سال فروری میں سعودی عرب کے فوجی سربراہ نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا ۔ دونوں ممالک دفاعی میدان میں تعاون کے دائرہ کار کو تیزی سے وسعت دے رہے ہیں۔2018ء سے بھارت اور سعودی عرب کی مسلح افواج کے مابین وفود کی سطح کے تبادلے جاری ہیں۔ بھارت کے دفاعی تربیتی اداروں میں رائل سعودی مسلح افواج کے افسران کی تربیت پر اتفاق ہوچکا ہے۔ سعودی عرب اور بھارت کی بحریہ کے درمیان تعاون اور رابطوں کا سلسلہ کافی گہرا ہوچکا ہے۔ اگلے مرحلے پر سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بھارت کے مابین مشترکہ فوجی مشقیں، عسکری عہدیداروں کے تبادلے اور مشترکہ طور پر اسلحہ سازی اور خلاء میں سائنسی تجربات کے شعبوںمیں تعاون کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔اس برس فروری میں متحدہ عرب امارات اور بھارت کے درمیان ہونے والے ایک معاہدہ میں طے پایا کہ دونوں ممالک موجودہ تجارتی حجم جو ساٹھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے کو بڑھا کراگلے پانچ برسوں میں سو ارب ڈالر تک لے جائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے خبر آئی کہ متحدہ عرب امارات نے مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ شارجہ سے سری نگر کے لیے فلائیٹس بھی شروع کی جاچکی ہیں۔اسلام آباد نے سرکاری طور پر اس پیش رفت پر خاموشی اختیارکی تاکہ عرب امارات کے ساتھ کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو لیکن پاکستانی رائے عامہ کیلئے یہ اطلاع ششدر کرنے دینے والی تھی۔ بھارت کی جانب سے خلیجی ریاستوں کے موجودہ رجحان کے پس منظر میں کئی ایک محرکات کارفرما ہیں۔مثال کے طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی لیڈرشپ کو شدت کے ساتھ احساس ہے کہ تیل پر دنیا کے انحصار کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔لمبے عرصے تک چلنے والی سولر بیٹریوں اور امریکہ میں دریافت ہونے والے شل تیل کے وسیع ذخائر نے بھی ان ممالک کو بے چین کررکھاہے۔ وہ تیل کے متبادل معیشت کھڑی کرنے کے لیے سرپٹ دوڑ رہے ہیں ۔ تیل پر دنیا کا انحصار ختم ہونے سے قبل وہ اپنے ملکوں کو عصر حاصر کی کاروباری صنعتوں یعنی آئی ٹی، سیاحت اور دیگر ذرائع سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں۔اس پس منظر میں بھارت میں انہیں کاروبار کے وافرمواقع دستیاب ہیں۔ وسیع مارکیٹ ہے اور لیبر بھی سستی ہے۔آبادی اور رقبے میں چھوٹا ملک ہونے کے باوجود متحدہ عرب امارات کاروبار، تجارت اور سیاحت کے شعبوں میں سعودی عرب سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ سعودی عرب کا خیال ہے کہ بھارت کے ساتھ کاروباری تعلقات کے فروغ سے محمد بن سلمان کے ویژن 2030 کے اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے اور وہ بھی عرب امارات کی طرح تیل کے بجائے دیگر ذرائع آمدن پیدا کرسکتاہے۔ چنانچہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھارت میں انفراسٹرکچر اور تیل کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی جس سے بھارت کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔بھارتی حکومت نے بھی بروقت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی معاشی ترجیحات اورہنرمند کارکنان کی ضرورت کا احساس کیا اور خود کو ان ممالک کے لیے اسٹریٹجک اور اقتصادی لحاظ سے مفید بنایا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں بھارتی ہنرمندوں کی اپنے ممالک میں آمد کو آسان بنانے کے لیے ملکی قوانین میں بھی نمایاں تبدیلی کررہے ہیںتاکہ زیادہ سے زیادہ بھارتیوں کی آمد کو یقینی بنایاجاسکے۔ بھارت کی طرف سے اس رجحان کا ایک محرک ان ممالک کے حکمران خاندانوں کا اپنی بادشاہتوںکے تحفظ کے لیے امریکہ بہادر پر کلی انحصار ہے۔ امریکہ انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار ہونے کے باوجود خلیجی ریاستوں میں بادشاہوں کو کندھا دیتا ہے کیونکہ اس کے مالی اور اسٹرٹیجک مفادات کیلئے ایسا کرنا ضروری ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ ان ممالک کو شیر و شکر کرا دیا ہے۔ اسرائیل کیساتھ تعلقات کے استوار ہونے کیساتھ ہی بھارت کیلئے مشرق وسطی کے دروازے چوپٹ کھل گئے ۔عرب ممالک کے اسرائیل کے تئیں بدلتے رویوں اور پالیسی سے بھی پاکستان اور ان ممالک کے تعلقات بالواسطہ طور پر متاثر ہو ئے ہیں۔ پاکستانی لیڈر شپ نے دباؤ کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ اس کے برعکس بھارت اور اسرائیل کے درمیان مضبوط تعلقات ہیں جو دفاع اور انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی ٹرانسفرجیسے حساس شعبوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ عرب ممالک اور بھارت میں ایک اور قدر مشترک امریکہ کے ساتھ گہرے دوستانہ اور کاروباری روابط ہیں۔یعنی یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ دنیا میں جو نئی سرد جنگ شروع ہوچکی ہے،اس میں بقول امریکی حکام کے وہ پاکستان کیساتھ محدود تعلقات رکھنے کے خواں ہیں نہ کہ کثیر الجہتی تعلقات کے روادار۔ پاکستان کی چین کے ساتھ شراکت بھی امریکیوں کو بے کل رکھتی ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان دہائیوں سے پائی جانے والی خلیج اب کشیدگی اور تناؤ کے قالب میں ڈھل چکی ہے۔علاوہ ازیں مشرق وسطی کے یہ ممالک دیکھتے ہیں کہ کون سا ملک ایران، امریکہ اور اسرائیل کے حوالے سے کیا پالیسی رکھتاہے۔ اتفاق سے پاکستان کی سوچ اور خارجہ حکمت عملی ایران، امریکہ اور اسرائیل کے حوالے سے ان ممالک کی سوچ سے میل نہیں کھاتی۔ علاوہ ازیںدنیا میں جو سرد جنگ شروع ہونے کو ہے یا ہوچکی ہے، اس میں بھی پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے ہمارے روایتی حلیف دو مختلف سمتوں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے دور حکومت میں پاکستان نے یمن کے خلاف فوج بھیجنے سے انکار کیا تویہ ’’جرأت‘‘ یا جسارت سعودی عرب اورعرب امارات کے حکمرانوں کو بہت ناگوار گزری۔ بھارت کو موقع ملا کہ وہ ان ممالک میں رسائی بڑھائے اور پاکستان کے روایتی اثر ورسوخ کو کم کرے۔حتیٰ کہ ان ممالک کا پاکستان کے دفاعی اداروں پر انحصار کم کرائے۔ پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کا ایک سبب مسئلہ کشمیر بھی ہے۔ یہ ممالک مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کیلئے آواز اٹھا تے ہیں اور نہ کسی فورم پر پاکستانی نقطہ نظر کی حمایت۔(جاری)