وفاقی حکومت نے متعدد اداروں اور محکموں میں اصلاحات متعارف کرانے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ جن اداروں اور محکموں میں اصلاحات متعارف کرائی جا رہی ہیں ان میں پی آئی اے‘ سول ایوی ایشن‘ ریلوے‘ سٹیٹ بنک‘ آڈیٹر جنرل اور وفاقی بیورو کریسی سمیت 20شعبوں کو شامل کیا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پی آئی اے میں افرادی قوت کم کی جائے گی اور انتظامی معاملات میں بہتری کے لئے نیا گروپ تشکیل دیا جائے گا۔ اصلاحاتی عمل کے دوران ہوائی اڈوں کو سول ایوایشن سے الگ ماتحت اداروں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ دوسری طرف ریلوے کا نظام جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق بنانے کے لئے چار نئی کمپنیاں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ ریلوے میں گریڈ ایک سے سولہ تک کی خالی اسامیوں کو مستقل بنیادوں پر ختم کیا جا رہا ہے جبکہ کاروباری لائسنسوں کو جدید بنایا جائے گا۔ پاکستان کے بہت سے اہم اور قومی اثاثہ کا درجہ رکھنے والے ادارے سابق حکومتوں کی غفلت کے باعث ریاستی وسائل پر بوجھ بن چکے ہیں۔ سیاسی سطح پر ایسے فیصلے کئے جاتے رہے ہیں جن کی وجہ سے منافع میں چلنے والے اچھے خاصے ادارے ڈوبنا شروع ہو گئے۔ پاکستان سٹیل‘ پی آئی اے اور ریلوے ان میں سرفہرست ہیں۔ حکومتیں آتی رہیں اور ان اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے عالمی اداروں سے قرض لے کر ان اندھے کنوئوں میں ڈالتی رہیں۔نتیجہ کے طور پر قرض سر چڑھ گیا اور اداروں کی حالت میں بہتری بھی نہ آ سکی۔ پھر مالیاتی معاملات کی شفافیت کے حوالے سے اہم اداروں کی بات ہوتی ہے۔ سٹیٹ بنک جو بینکنگ نظام کے ریگولیٹر کے طور پر بھی کام کرتا ہے اس کو نئے عالمی قوانین سے ہم آہنگ میکنزم ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ایف اے ٹی ایف مسلسل دہشت گردی کے لئے استعمال رقوم اور منی لانڈرنگ کے خاتمہ کے لئے مضبوط نظام کا مطالبہ کر رہا ہے‘ روپے اور ڈالر کی شرح تبادلہ کا معاملہ ہے۔ان سب کے لئے سٹیٹ بنک میں اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے‘معاشی بڑھوتری کا حجم کم ہونے کے بعد اس کی شرح اب منفی ہو چکی ہے۔ کورونا کی وبا نے کاروبار‘ خدمات اور پیداواری عمل پر شدید منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ معاشی اور سرمایہ کاری انڈکس نیچے آ چکے ہیں۔ افراط زر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ درآمدات میں کمی کی موثر کوششوں کے باعث تجارتی خسارہ بڑی حد تک مناسب سطح پر آ گیا ہے مگر اس کے منفی اثرات متعلقہ شعبوں اور معاشی سرگرمیوں میں کمی کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک صنعت‘ پیداوار ‘ خدمات اور بینکنگ سیکٹر کی سرگرمیوں میں کسی نہ کسی حوالے سے شامل رہتا ہے۔ اس لئے اصلاحات کا عمل مجموعی معاشی صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ بلا شبہ پی آئی اے کسی زمانے میں قومی افتخار کی علامت رہا ہے۔ دنیا کی کئی ہوائی کمپنیوں نے اپنے عملے کی تربیت کے لئے پی آئی اے سے مدد لی لیکن اب حالات دگرگوں ہیں۔ ضرورت سے زاید عملے کی بھرتی، سیاسی مداخلت، اقربا پروری اور بدانتظامی نے نوبت اس مقام تک پہنچا دی کہ کل 35جہازوں میں سے 31کو مرمت کی ضرورت ہے۔ جعلی لائسنسوں کے معاملے پر پوری دنیا ہنس رہی ہے۔ آئے روز کوئی نیا سکینڈل سامنے آتا ہے اور پی آئی اے کی بحالی کی امید ٹوٹنے لگتی ہے۔ یقینا اس ادارے کی بحالی کے لئے سخت اصلاحاتی عمل درکار ہو گا۔ پی آئی اے کے جہاز جس تواتر کے ساتھ چھوٹے بڑے حادثات کا شکار ہوتے رہے ہیں اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ ہر سال ادارے کی کارکردگی اور اخراجات پورے کرنے کے لئے وفاقی حکومت اربوں روپے مختص کرتی ہے۔ یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ رقوم مراعاتی اخراجات پورا کرنے کی بجائے نئے جہازوں کی خریداری اور نئی ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے خرچ کی جائیں تو پی آئی اے ایک بار پھر لاجواب سروس میں ڈھل سکتی ہے۔ پی آئی اے کی طرح ریلوے جیسا عوامی ادارہ برسوں سے تباہ حال ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اگست 2018ء سے دسمبر 2019ء کے درمیان مختلف ٹرین حادثات کے باعث ریلوے کو 410ملین روپے کا نقصان ہوا۔سیاسی بھرتیوں نے اس ادارے کی بربادی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان ریلوے مختلف مقامات پر محافظوں کے بنا بنے 550پھاٹکوں کو محفوظ بنانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے ریلوے کے نظام کو جدید بنانے کے لئے سی پیک کے تحت دوست ملک چین کی مدد سے سرمایہ کاری کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ اربوں ڈالر کے اس منصوبے میں شفافیت برقرار رکھنے کے لئے نگرانی کا موثر نظام درکار ہے جو اصلاحاتی تدابیر کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ سابق گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں اصلاحات کمیٹی مختلف اداروں اور محکموں کی کارکردگی میں بہتری لانے کے لئے کام کر رہی ہے۔72برسوں کے دوران ایک ہی رخ پر کام کرنے کے لئے اداروں میں اصلاحات کر کے نئے مسائل سے عہدہ برا ہونے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے اصلاحات کا عمل کچھ حوالوں سے تکلیف دہ محسوس ہو لیکن مستقل خرابی سے نجات کی خاطر اگر کہیں معمولی نشتر کاری کی ضرورت ہو تو اس میں قباحت نہیں‘ اصلاحات کا عمل خوش آئند کہا جا سکتا ہے لیکن اس سلسلے میں ایک متوازی نگرانی اور تخمینے کا نظام فعال بنانا ضروری ہے جو اصلاحاتی عمل کی افادیت کا بروقت حال معلوم کر سکے اور کہیں خرابی نمودار ہو تو اس کا فوری تدارک ہو سکے۔