ابر اترا ہے چار سُو دیکھو اب وہ نکھرے گا خوب رو دیکھو ایسے موسم میں بھیگتے رہنا ایک شاعر کی آرزو دیکھو پہلے پری مون سون اور اب اصلی مون سون اتر آئی ہے۔ سب کچھ جل تھل ہو گیا ہے۔ یہ ہمارا پانچواں موسم ہے جو ایک دفعہ تو سب کچھ ڈبو دیتا ہے۔ صرف ایک چیزی ہی باقی بچتی ہے جو رات گئے ایسی ٹر ٹر لگاتی ہے یا ٹراتی ہے کہ ہر طرف اسی آواز کا راج ہوتا ہے۔ ویسے تو مینڈک ہی کیا ایسی کئی چیزیں زمین سے نکل کر باہر آ جاتی ہے۔ ہمیں تو بے طرح شہباز شریف یاد آئے کہ وہ اس خوفناک بادو باراں میں اور کھڑے پانیوں اپنے لانگ شوز کے ساتھ سر پر ہیٹ رکھے اور سفاری سوٹ پہنے نظروں کا مرکز ہوتے تھے۔ خاص طور پر اندرون شہر جہاں کے بارش کے پانی میں گھوڑے تک ڈوب جاتے ہیں میں نے پورے گھوڑے کا ذکر نہیں کیا۔ بہرحال جہاں سارے رستے مسدود ہو جاتے تھے ہمارے خادم اعلیٰ کہیں نہ کہیں سے آ نکلتے تھے پر اس کے بعد ان کا بیورو کریسی اور دوسری انتظامی مشینری کو اپنے ساتھ ٹانگ کر رکھتا کوئی دوسرا نہیں کر سکتا اکثر افسر کہتے کہ یہ عجیب شخص ہے جسے جاگنے کی بیماری ہے اور یہ ہمیں بھی سونے نہیں دیتا۔ لکھنا تو کچھ تھا تمہید کچھ اور بندھ گئی۔ ورلڈ کپ برطانیہ اٹھا چکا۔ لیکن دیکھنے والوں کی ہمدردیاں نیوزی لینڈ کے ساتھ تھیں کہ انہوں نے برطانوی ٹیم کو تارے دکھا دیئے۔ صرف 241سکور پر ایسی نپی تلی بائولنگ کہ انگلینڈ کو ہار کے قریب پہنچا دیا مگر ٹرنٹ بولٹ نے کیچ کیا تو پائوں بائونڈری کو جا لگا اور اس کے بعد ان آئوٹ کے لئے اور تھرو نیوزی لینڈ کی بدقسمتی پر مہر لگا گئی۔ مگر یوں بھی ’’سپراوور‘‘ پر فیصلہ ہوا یہ کرکٹ ورلڈ کپ ہسٹری میں پہلی مرتبہ ہوا جو بھی اس پر دلچسپ تبصرے آپ کو ہنسنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ مثلاً سرفراز کی طرف سے لکھا گیا کہ چونکہ میچ برابر ہو گیا تھا اس لئے اخلاقی طور پر کپ پاکستان کا بنتا تھا کہ دونوں ٹیمیں پاکستان سے ہاری ہوئی تھیں۔ کسی نے یہ بھی لکھا کہ برطانیہ کو یہ کپ ہندوستان کی نذر کر دینا چاہیے کہ وہ ان سے جان بوجھ کر ہارے تھے کئی اور مزے مزے کی باتیں بھی ہوتی رہیں۔ بات یہ ہے کہ برطانیہ کی جیت کوئی جیت نہیں ہے نیوزی لینڈ نے باقاعدہ ان کی ناک لکیریں نکلوا دیں۔ لیکن یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ نیوزی لینڈ قانونی جمع خرچ یعنی کرکٹ رولز کے تحت ہی سیمی فائنل کھیلا اور انہیں رول کے تحت اسے ہارنا پڑا وگرنہ سکور تو برابر ہے۔ بہرحال کسی ایک کو تو جیتنا تھا مگر اس سے زیادہ دلچسپ میچ کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ کرکٹ کے حوالے سے ایک دلچسپ بات جو ہمارے چاہنے والوں نے داد دے کر یاد دلائی کہ ہم نے ایک کالم میں فردوس عاشق اعوان کے اس دعوے پر کہ وہ کرکٹ میں آل رائونڈر رہی ہیں۔ کہا تھا کہ وہ سیاست میں بھی آل رائونڈر ہیں۔ کون سی پارٹی وہ نہیں گھومیں ان کے لیول کا آل رائونڈر صرف فواد چودھری ہے۔ اب کھیل کے ساتھ ساتھ کچھ پڑھنے لکھنے کی بات بھی ہو جائے کہ میرے سامنے ایک ناول ہے جس پر لکھنے کا میں سوچتا رہا کہ یہ ناول دراصل سندھ کلچر کا آئینہ ہے وہاں کی وڈیرا شاہی ‘ کاروکاری اور دوسری کئی رسمیں زیر بحث آئیں۔ بلکہ یوں کہیں کہ اس ناول کی مصنفہ خود اس کا مرکزی کردار لگتی ہیں۔ دعا علی نے اس کہانی کو حقیقت کا رنگ دیا ہے یا حقیقت کو کہانی بنا کر پیش کیا مگر یہ ہے دلچسپ اور سبق آموز۔ ناول کے سرورق پر ایک شعر بھی تحریر ہے: زندگی کی راہوں سے غم کی غم پناہوں سے میں سمیٹ لائی ہوں لمحہ لمحہ کرچیاں مزے کی بات یہ ہے کہ میں اس ناول کو ایسے یہ دیکھنے بیٹھا کہ چیدہ چیدہ کچھ مل جائے۔ ایک شاعر کے لئے ناول پڑھنا ایک کار دارد ہے مگر یہ ناول آپ کو چھوڑتا نہیں۔ یہ بنیادی طور پر ایک معصوم لڑکی کی کہانی ہے جو اپنی ایک غلطی جو کہ کسی کمزور لمحے میں سرزد ہو جاتی ہے‘ کا خمیازہ ساری عمر بھگتتی ہے۔ وہ محبت کے جال میں پھنس کر شادی کرتی ہے مگر اس دیس میں تو یہ ایک نیا سنگ میل ہی ہوتا ہے۔ اپنے حرم میں نیا پرندا ڈالنے والی بات۔ لڑکی کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور پھر اپنا مقدر تراشنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ مجھے معاً عدیم ہاشمی یاد آ گیا ہے: اس نے ہنسی ہنسی میں محبت کی بات کی میں نے عدیم اس کو مکرنے نہیں دیا اس کردار نے بھی ثابت قدمی کے ساتھ سبکی اور بے عزتی تک برداشت کی مگر اس رشتے کو ٹوٹنے نہیں دیا۔اس گھر میں اپنی جگہ بنا لی۔اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر لیا۔ اپنے میاں کی دوسری منکوحہ کے بچوں کو محبت دی۔ آخر اس صورت حال نے جاگیردار میاں کو بھی بدل کر رکھ دیا اور اسے معلوم ہوا کہ لڑکی کوئی ٹشو پیپر نہیں ہوتی۔ وہ ایک جیتی جاگتی ایک حقیقت ہے۔ پھر مجھے شہزاد احمد یاد آ ئے: اپنا حق شہزاد چھینیں گے مانگیں گے نہیں رحم کی طالب نہیں بے چارگی جیسی بھی ہے لمحہ لمحہ کرچیاں اصل میں ایک ناولٹ ہے۔ اس لئے اس کا اختصار اس کی تاثیر میں اضافہ کرتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ سندھ میں ڈیروں کی زندگی ناقابل برداشت ہے۔ کاروکاری کے نام پر کسی بھی غریب لڑکی کو بے آبرو کر دیا جاتا ہے۔ اس ثقافت کے ضمن میں جس کلاسک ادب تخلیق کیا ہے نور الہدیٰ شاہ ہیں۔ وہ لاہور آئیں تو انہوں نے اپنا افسانہ سنا کر محفل لوٹ لی۔ خاص طور پر ڈرامے کو انہوں نے اپنے بیان کا ذریعہ بنایا۔ نور الہدیٰ شاہ کا تذکرہ میں نے اس لئے کیا کہ دعا علی جیسی نئی لکھنے والیوں کو نور الہدیٰ شاہ سے بہت سی گائیڈ لائنز مل سکتی ہیں۔ ایک اور نہایت اچھا لکھنے والی فیصل آباد کی طاہرہ اقبال ہیں۔ خاص طور پر گائوں کی ثقافت اور زبان کو انہوں نے اردو کے ساتھ ملا جلا کر ایک اپنا ہی اسلوب پیدا کیا ہے۔ تحریر کی خوبصورتی اپنی جگہ مگر جب کردار میں آپ خود ہوں تو پھر تحریر سانس لینے لگتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں رانی نذیر کے ناول’’نہ عشق کیا نہ کام کیا‘‘ پر لکھتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی ہیروئن ایک معصوم بچے کی طرح پھولوں کے درمیان اڑتی ہوئی تتلی کو پکڑتے ہوئے کہیں دور نکل کر گم ہو گئی ہے۔ واپسی کا راستہ سب کو کب ملتا ہے: عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے