برابر بڑھ رہا ہے غم کسی کو دوش کیا دیں ہم ہیں اپنے آپ پر برہم کسی کو دوش کیا دیں ہم ہنسے کوئی تو ہنسنے دو‘ہمارا حال رہنے دو جب اپنی آنکھ ہے پرنم کسی کو دوش کیا دیں ہم حالات کے سامنے ہم نے تو ہتھیار پھینک دیے ہیں ایسے لگتا ہے کہ یہ خودکارسا عمل ہے کوئی اس کج روی کی مثال نہیں اسے روکنے کی کوشش کریں تو یہ لوگ اور مچلتے ہیں کہے اس نے جو کہنی ہے ہمیں تو بات سنی ہے۔کیا ہے ہم نے جب سرخم کسی کو دوش کیا دیں ہم اڑتا ہوا ایک مصرع میرے سامنے کھڑا ہے مجھے دوش نہ دینا جگ والو۔ہو جائوں اگر میں دیوانہ اس کی وجہ یہاں جلال و جمال نہیں بلکہ بے ہنگم صورت حال ہے کبھی کبھی میں یوں بھی سوچتا ہوں کہ آسانی کے ساتھ مشکل اور مشکل کے ساتھ آسانی ہے: ملنے کی ہے خوشی تو بچھڑنے کا غم بھی ہے صبح طرب کے ساتھ ہی شام الم بھی ہے یہ چل چلائو ایسے ہی رہے گا آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول۔عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔سچ مچ مجھے تو وہ دور یاد آتا ہے کہ طبیعت میں ایک بے چینی تھی۔ وہی جو ورڈز ورتھ نے نقشہ کھینچا ہے کہ انسان کے جسم میں اتنی پھرتی ہوتی ہے کہ وہ کبھی یہاں تو کبھی وہاں۔مثال اس نے چمکتی بجلی کی دی کہ کبھی اس پہاڑی پر اور کبھی اس پہاڑی پر یا پھر ہلکی پھلکی کشتیوں کے مثل پانی پر اڑتا ہوا جاتا ہے یہ تو کھیلنے کے دن ہیں مگر اس سے ذرا آگے کی بات میں نے کی ہے۔ایسے ہی دل چاہا کہ دل کی بات کر دوں۔شہزاد احمد مجھے بے چین روح کہتے تھے۔تب ہم منیر نیازی کی غزل گنگنایا کرتے۔بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا۔اک آگ سی جذبوں کی مہکائے ہوئے رہنا۔یہ ایک تخلیقی بے چینی ہے سمجھائی نہیں جا سکتی۔میں انڈہ دینے کی مثال نہیں دے سکتا مگر ٹوم ایڈی سن کا تذکرہ ضرور کروں گا جس نے سات سال کی عمر میں انڈوں پر بیٹھ کر نتیجہ چاہا اس کی ماں نے دیکھ لیا تو اسے مارا کہ کیا حرکت کر رہے ہو مگر اس نے بہت سنجیدگی سے کہا تھاI want to see۔ کریں بھی کیا، حال کی پریشانی مجبور کر دیتی ہے کہ ہم ماضی میں پناہ لیں کہ ہمیشہ ماضی ہی خوبصورت ہوتا ہے یا پھر فردا کے خواب جو حکمران ہمیں دکھاتے رہتے ہیں۔مزے کی بات ہے فقرہ تقریباً ہوتا ہے صرف لہجے کا فرق پڑتا ہے۔لالہ عیسیٰ خیلوی جو کہ میرے بھی دوست ہیں گاتے تھے تو لطف آتا تھا اچھے دن آئے ہیں۔ ظاہر ہمارا فیورٹ لیڈر آیا تھا اور ہم توقعات سے لبریز تھے۔ وہی جملہ کہ اچھے آئے ہیں‘سوالیہ نشان کے ساتھ سامنے آیا کہ اچھے دن آئے ہیں۔بہرحال کچھ یادیں ہیں جو سہارا دینے آتی ہیں اور ایک امید کہ یہ دن بھی گزر جائیں گے وقت ایک سا نہیں رہتا خواب تو دیکھا جا سکتا ہے خوابوں سی دلنواز حقیقت نہیں کوئی یہ بھی نہ ہو تو درد کا درمان بھی نہ ہو۔ہم سوچتے ضرور ہیں کہ کہاں کھو گئی وہ بشارت کی راتیں‘جوانی کی باتیں مرے ہمنوا نہ خوابوں کی خوشبو نہ پریوں کی آمد‘سبھی کچھ تھا وہم گمان ہو گیا ۔آپ یقیناً کہیں گے کہ میں کوئی اس زمانے کی بات کروں یعنی حقیقت پر مبنی اور ٹھوس بات۔ آپ فوری بتائیے کہ یہاں کیا بات‘جہاں حکومت یہ کہے کہ مہنگائی کا سبب بننے والوں کے خلاف کریک ڈائون کا حکم دے دیا گیا ہے۔مہنگائی کا سبب ڈھونڈا جا رہا ہے۔ہائے ہائے بلھے شاہ میری بکل دے وچ چور‘دوسری دہائی یہ دی جا رہی ہے کہ مافیاز مہنگائی بڑھا رہے ہیں اس سے بھی پہلے یہ خیال کیا گیا کہ مہنگائی کا سبب سابق حکومتیں تھیں ایک وجہ باہر کی مہنگائی بھی بتائی گئی حیرت ہے کہ ان کو سامنے کی چیز نظر نہیں آ رہی!یقینا آ رہی ہے مگر جو تجاہل عارفانہ میں مزہ ہے: پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو حسن والوں کی سادگی نہ گئی بندہ پوچھے پٹرول گیس دوسری اشیائے صرف آپ بڑھا رہے ہیں اور اسباب ڈھونڈنے نکلے ہیں۔پٹرول گیس اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ گرانی میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے اب بلاول کو یاد کریں کہ زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے آپ تو اس کا مذاق اڑاتے تھے جناب ساری مہنگائی کا سبب قبلہ جی آپ خود ہیں۔مگر اس حکومت کو تو ذرا سا خیال بھی نہیں آتا کہ لوگ کیا کہتے ہیں!ان کی طرف سے کوئی مرے یا جیے انہیں کیا اب کے مڈل کلاس تو پس کر رہ گئی ہے کہ جو وضع داری میں رو نہیں سکتی۔ ایک چھوٹی سی مثال کہ میں جس پوائنٹر سے لکھ رہا ہوں یہ خان صاحب کے آنے سے پہلے دس روپے کا تھا اب تیس روپے کا ہے ڈبل روٹی جو 70روپے کی تھی 130روپے کی ہے رکشے گیس پر ہوتے تھے کہ سستی پڑتی تھی۔ اب رکشے والے تقریباً دگنا کرایہ لیتے ہیں کہ گیس بہت مہنگی ہو گئی ہے: کاش لیل و نہار سے نکلوں میں تری رہگزار سے نکلوں میرے حق میں وہی کرو تم بھی کہ تمہارے حصار سے نکلوں مگر ہوا میں تو گہر اور بڑھ رہی ہے۔یہ گہر کوئی بادلوں کی گھٹائوں کے باعث نہیں بلکہ یہ سموگ ہے جو عہد موجود کا استعارا ہے۔حالات بھی تو سای طرح کے ہیں کہ کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہر کوئی من مانی پر اترا ہوا ہے صاف اور شفاف کچھ بھی نہیں اب تو صاف چلی شفاف چلی بھی ایک لطیفے کے سوا کچھ نہیں۔کہا جا رہا ہے کہ یہ میٹرو ‘اورنج ٹرین اور ایسے دوسرے غیر ترقیاتی کاموں پر اربوں لٹا دیے۔چلیے ایک لمحے کو مان لیتے ہیں مگر بھائی جان ہمیں ترقیاتی کام بھی تو دکھائیں جو آپ نے کئے ہیں۔ایک ویڈیو لیک ہو جاتی ہے اب ووٹ خریدنے کی ویڈیو سامنے آ گئی ہے مگر کوئی ماننے کے لئے تیار نہیں کہتے ہیں کہ ہمارا بینر لگا کر دشمن یہ کام کر رہے ہیں۔بندہ سر پکڑ لیتا ہے کسی کا بھی کچھ اعتبار نہیں رہا۔ایک سوال ضرور ہے کہ سب باہر کیوں بھاگ جاتے ہیں قید ہو کر بھی ایک دوسرے جو نظروں میں آ جاتے ہیں: عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے