اس کے حصار سے تو اگرچہ نکل گیا گرمی سے اپنے جذبے کی لیکن میں جل گیا حیران کھڑا تھا میں تو زمانے کو دیکھتا پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی بدل گیا اور پھر یوں بھی ہے کہ ’’اب کے خیال یار سے ممکن نہیں گریز۔ شاہد وہ میری سوچ کے سانچے میں ڈھل گیا‘‘ اس خیال کو یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے‘ لہو کے ساتھ رگ و پے میں دوڑنے والے۔ تہی بتا کہ تجھے کس طرح جدا کرتے۔ یہ اصل میں انتہاء محبت ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہنے جارہا ہوں لیکن آپ کی دل لگی کے لیے تھوڑی سی کرکٹ ایشیا کپ فائنل کی بات ضرور کریں گے اس وقت ہنس دیا کہ جب سری لنکا نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو ہر میدان میں بے بس کردیا اور خاص طور پر بیٹنگ میں ہمارے کھلاڑی خزاں کے گرتے پتوں کے مانند تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے۔ تو جناب ہم ایک عرصہ سے پاکستانی سیاست میں سن رہے تھے کہ پاکستان کو سری لنکا بنایا جارہا ہے۔ ظاہر ہے وہ بات اگرچہ معیشت کے حوالے سے تھی اور اس خدشے کا لگا تار ذکر ہو رہا ہے کہ اگر قسط روک دی جاتی تو ہم سری لنکا بن جاتے وغیرہ وغیرہ۔ سری لنکن ٹیم نے عملی طورپر جواب دیا کہ نہیں نہیں پاکستان سری لنکا نہیں بن سکتا۔ وہ ٹائیگر ہیں ان کو ہرانا ممکن نہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ وہ بہادر کھلاڑی ہیں ابتدائی چار وکٹوں کے گرجانے کے باوجود انہوں نے رن ریٹ گرنے نہیں دیا اور 170 رنز تک ٹوٹل لے گئے۔ بھارت کے خلاف ہم نے 182 کرلیا تھا۔ نہیں صاحب سری لنکا بھارت نہیں۔ انہوں نے اگرچہ آغاز میں اپنے اٹیک کی وائیڈ بالوں کے باعث دس رنز مفت میں دے کر پاکستان کے ٹارگٹ کو 160 رنز بنا دیا تھا۔ مگر بابراعظم آئوٹ ہو جانے کے خوف میں مبتلا تھے اور وہ پانچ رنز بنا کر آئوٹ ہو گئے۔ ایک اور کھلاڑی بابر اعظم کے پیچھے پیچھے ہی چلا گیا۔ مزے کی بات یہ کہ ہمارے رضوان نے ففٹی بنائی اور کسی نے پوسٹ لگا کر رضوان پر ریاض مجید کا مصرع لکھا میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں۔ اس مصرح کے نیچے لوگوں کے وہ وہ تبصرے آئے کہ بس۔ یہ تبصرہ ٹھیک تھا کہ رضوان کو جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ اس وقت وہ بھی مجھے مصباح الحق لگے جنہوں نے ورلڈ کپ کی ٹک ٹک کے بعد بابا ٹک ٹک کا خطاب شائقین سے حاصل کیا تھا۔ کھلاڑیٹیسٹ میچ کی طرح کھیلے اور رن ریٹ اوپر اٹھا دیا اور آنے والے سخت دبائو میں آ گئے۔ ایسے ہی شعر یاد آ گیا: کسی کے آنے سے ساقی کے ایسے ہوش اڑے شراب سیخ پہ ڈال کباب شیشے میں کہنے کا مطلب کہ ان کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ خاص طور پر ان پر اپنی کمزوری کھلی کہ یہ سپنرز کو نہیں کھیل سکتے۔ آخری اوورز میں بھی ایک اوور میں دو تین سکور ڈال رہے تھے لیکن سچی بات یہ ہے کہ سری لنکا کی ٹیم ویسے ہی ان سے اچھی ہے اور اچھا کھیلی اور پھر چھٹی مرتبہ ایشیا کی چیمپئن بنی۔ یعنی پاکستان اسرائیل نہیں بن سکتا۔ کل تک یہ ایک اور بات پر خوش تھے کہ شاید پاکستان نے سری لنکا سے جو روٹین کے سرکل کا میچ کھیلا تھا وہ جان بوجھ کر خیر سگالی یا دوستی میں ہارا تھا۔ بہرحال یہ تاثر عام تھا کہ چلو کوئی بات نہیں فائنل تو ہمارا ہے بلکہ ہمارے خوش گمانوں نے تو پاکستان کرکٹ ٹیم کو آنے والا ورلڈ کپ بھی جتوا دیا تھا۔ پھر سری لنکا نے ان کی ایسی طبیعت صاف کی کہ ساری غلط فہمی دور کردی۔ ایسا دبائو کہ محمد آصف بھی لڑکھڑا گیا۔ اب ذرا سیاست کی بات ہو جائے کہ اس میں اب عمران کے سوا کچھ نہیں بچا۔ ہر سطح پر وہی مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ماحول بہت ٹینس ہے۔ ٹینس کا اردو ترجمہ نہیں کرسکتا۔ عمران خان کا بیان کہ حکومتی اقدام سے عوام میں نفرت بڑھے گی۔ الیکشن کمیشن مجھے ناہل کرنا چاہتے ہیں۔ حالات کا پتہ دے رہا ہے۔ دوسری طرف فواد چوہدری اور اسد عمر کا یہ فرمانا کہ فیصلوں کا حق عوام کو ہونا چاہیے محل نظر ہے۔ لگتا یوں ہے کہ حکومت مخالف ملک گیر تحریک کی تیاری ہے حکومت تو مگر کہیں نظر نہیں آتی۔ سیلاب زدہ لوگوں کے پاس بھی الخدمت جیسی تنظیمیں ہی پہنچی ہیں بلکہ سچی بات یہ کہ اس معاملے میں خان صاحب بھی باتوں تک ہیں وگرنہ وہ ان تک پہنچتے تو ان کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا۔ اصل میں یہاں باتیں کرنے والے اور ہیں اور کام کرنے والے اور۔ سیلاب زدگان اس وقت بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور ان کے لیے دوائیاں نہیں۔ مونس الٰہی کا بیان کہ عوام پیناڈول جیسی بنیادی دوا سے محروم ہے۔ اس پر وہ شہبازشریف کوگولی باز کہہ رہے ہیں۔ میں دیر تک سوچتا رہا کہ ہم ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بیان پر غور نہیں کرتے۔ مجھے تو خواجہ آصف کے بیان پر بھی ہنسی آئی ہے کہ عمران خان کا اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانا ان کی حکمت عملی ہے شاید خود آصف صاحب اسٹیبلشمنٹ پر بھول برساتے رہے ہیں۔ رانا ثناء اللہ اپنے مزاج کے مطابق فرما رہے ہیں کہ الیکشن سے پیشتر عمران خان کی پارٹی کی سیاسی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ عوام غلط فہمی کا شکار ہیں اور یہ قانون سے بچ نہیں سکتے۔ رانا صاحب کے مقابلے میں شیخ رشید کہتے ہیں کہ عمران خان کو نااہل کرنا اور جیل بھیجنا ممکن ہی نہیں۔ ایسے بیانات کا دبائو یااثر یقینا اداروں پر ہے۔ عدلیہ بھی کہہ چکی ہے کہ ان کے سامنے مثالیں موجود ہیں مگر عدلیہ یہ بھی چاہتی ہے کہ انتشار نہ پھیلے۔ بہرحال وزیراعظم ملکوں کے دورے فرمائیں گے۔ برطانیہ اور امریکہ کا بھی۔ وہ یہ بھی تو کہہ چکے ہیں کہ ہم مشکل سے نکل چکے واقعتاً وہ اپنے آپ کو مشکل سے نکال چکے کہ وہ آئے ہی اس لیے تھے۔ دیکھئے وہ عوام کو مشکل سے کب نکالتے ہیں: تم محبت کو تجارت کی طرح لیتے تھے یوں نہ ہوتا تو تمہیں اس میں خسارا ہوتا