مڈل ایسٹ امور کے ماہر عدنان ابو عامر کے مطابق اسرائیل توانائی کی اپنی ضروریات کیلئے75فیصد تیل عراق کے کرد علاقوں سے حاصل کرتا ہے اور اسکے بدلے کرد علاقوں کے مواصلات اور سیکورٹی کے امور اس نے اپنے ہاتھوں میں لئے ہیں۔اس سے قبل 2016ء میں اور پھر 2018ء میں ترکی نے شام کے اندر جرابلس اور آفریں میں بھی اسی طرح کا آپریشن کرکے 365,000 مہاجرین کو واپس بھیجنے کے انتظامات کئے۔مگر آخر صرف موجودہ آپریشن نے ہی کیوں مغربی دنیا اور اسرائیل کو جھنجوڑ ا ہے؟ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پردہ کے پیچھے کوئی کھچڑی پک رہی تھی، جس کا ذائقہ اس آپریشن نے خراب کر کے رکھ دیا۔ اسرائیل کردوں کی حق خود ارادیت کا بڑا حامی رہا ہے۔ 1960ء اور پھر 1973ء میں کرد رہنما مسعود البرزانی نے اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا، جب عرب ممالک اس کے ساتھ برسرپیکار تھے۔ ستم ظریفی یہ ہے فلسطینی عوام کو کچلنے اور ان کے حق خود ارادیت کو دبانے والا ملک آخر کیسے کردوں کی حق خود ارادیت کا سب سے بڑا حامی بن گیا ہے۔ اسرائیل شاید ابھی بھی اپنے پہلے وزیر اعظم بن گوریان کے اس فارمولہ پر عمل کر رہا ہے ، کہ عربوں کو الگ تھلگ کرنے کیلئے خطہ میں نان عرب گروپوں کے ساتھ اتحاد بنا کر فلسطینیوں کو مزید تختہ مشق بنائے۔ اسرائیلی لیڈروں کا کہنا ہے کہ کرد اور یہود مڈل ایسٹ کی دو اقلیتیں ہیں، جن میں سے ایک اقلیت یعنی یہودیوں کو وطن مل گیا ہے اور اب دوسری اقلیت یعنی کردوں کے وطن کیلئے جدو جہد کو حمایت دینا لازمی ہے۔ اینٹلی جنس ذرائع کے مطابق کرد علاقوں کو ہی بیس بناکر اسرائیل نے حال ہی میں ایران کی تنصیبات پر حملے کئے، جس نے ترکی کی بھی چولیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔اسکو خدشہ تھا اسکی سرحد پر کر د علاقہ کا قیام ، جس کی باگ دوڑ اسرائیل اور مغربی ممالک کے ہاتھوں میں ہوگی ، ریشہ دوانیوں اور خطہ میں عدم استحکام کا باعث ہوگی۔ اس کے علاوہ ان علاقوں سے عرب آبادی کا انخلا ایک اور انسانی المیہ کو جنم دے گا۔ جن کو اب شاید ہی کوئی ملک پناہ دے پائے گا۔اس سال جون میں استنبول کے مئیر کے انتخابات میں اپوزیشن سی ایچ پی نے اردوان کی پارٹی کے خلاف ریفوجی ایشو کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شامی ریفوجی ،ترکوں کے وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں۔ایک صدی قبل اتا ترک نے جس طرح عربوں کے خلاف نفرت کو ترک نیشنل ازم میں تبدیل کر دیا، اپوزیشن بالکل اسی طرح ترک نیشنل ازم کو ابھار کر اقتصادی مندی کو بھی ریفوجیوں کے سر منڈھا رہی تھی۔ان انتخابا ت میں حکمران اے کے پی کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ترکی میں اب چار سال بعد صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ استنبول کے انتخابات نے اردوان کو پیغام دیا کہ عالم اسلام یا دینا میں اسکی امیج مسلمہ ہے، مگر گھریلو فرنٹ پر اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے اور ریفوجی ایشو کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔شام کی صورت حال میں جتنی پیچیدگیاں دن بدن پیدا ہو رہی ہیں، اسمیں ان مہاجرین کے واپس اپنے گھرجانے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے تھے، لگتا تھا کہ ان کو مستقل ترکی میں ہی قیام کرنا پڑے گا۔ اس علاقہ میں ترکی اگر اب واقعی امن بحال کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے ، تو ان کی واپسی کی راہیں کھل جائیں گی۔ اس فوجی آپریشن کو طوالت دینے کے بجائے اس بار بھی اردوان کو بس اسی ایک نکتہ پر توجہ مرکوز کرکے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ 2003ء میں اقتدار میں آنے کے بعد اردوان نے جس طرح مفاہمت کی پالیسی کو اپنا کر ، کرد سمیت مختلف گروپوں کو پارلیمنٹ اور دیگر اداروں میں نہ صرف نمائندگی دلوائی، اور حکومت میں بھی شامل کروایا، کرد علاقوں میں ترقی و تعمیر کا ایک باب رقم کیا، اس کو ازسر نو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ فاتح بیت المقدس سلطان صلاح الدین ایوبی کی قوم کردوں کو مغرب اور اسرائیل کے سحر کے نکال کر ان کو اپنی ہی زریں تاریخ سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔ فی الحال ترکی کے اس فوجی اپریشن سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ اردوان دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اس سے قبل اس نے ناٹو کا رکن ہوتے ہوئے بھی روس سے ایس ۔400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدکر ایک بڑے سفارتی چیلنج کا سامنا کرکے، اسکو نہایت ہی اچھے طریقے سے سلجھا دیا۔ شاید اسی وجہ سے بشارالاسد کا حلیف ہوتے ہوئے بھی روس کا رد عمل کچھ زیادہ سخت نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ عالمی امور میں امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کردوں سے پہلے صدر ٹرمپ نے ایران کے ایشو پر بھی متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو توقع کے برعکس معاونت ،بس زبانی جمع و خرچ تک ہی محدود رکھی۔ تجزیہ کارو ں کے مطابق اسرائیلی اداروں میں اب یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ کہیں ٹرمپ تل ابیب کو بھی اسی طرح بے یار و مدد گار نہ چھوڑدے ، جس طرح اس نے سعودی عرب اور کردوں کی حمایت سے ہاتھ کھنچ لئے ہیں۔ 1991ء میں امریکی صدر جارج بش سینئر نے باضابط ٹی وی پر عراق میں شیعوں اور کردوں سے اپیل کی تھی کہ وہ صدام حسین کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ دونوں نے اس اپیل پر لبیک کہہ کر پرچم بغاوت بلند کیا۔ مگر جب صدام حسین نے ان پرنہ صرف بم بلکہ کیمیاوی ہتھیاروں کی بارش کی، تو امریکہ دور کھڑا تماشہ دیکھ کر بس مذمتی قراد پاس کروا رہا تھا۔ پاکستانی صدر جنرل ضیاء الحق کی موت کا تذکرہ کرتے ہوئے سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ ۔’’میرے ذہن میں آیا کہ امریکہ کا حلیف ہونا کس قدر پر خطر ہے۔ امریکہ سے دوری رکھنا یا غیر جانب دار رہنا قدرے اچھا ہے، مگر امریکہ کے ساتھ دشمنی رکھنا اسے سے بھی بہتر اور حفاظت کی علامت ہے۔‘‘