اہلِ سیاست گنگ ہیں، اہلِ دانش حیران ہیں، منبر و محراب چُپ ہیں، سناٹا ہے، کوئی بولنے کی جرأت نہیں کر رہا۔ اس لیے کہ سب شریکِ جرم ہیں۔ سب نے کانٹوں کی اس زہریلی فصل کے بونے، اس کی نگہداشت کرنے اور اسے پروان چڑھانے میں مقدور بھر حصہ ڈالا ہے۔ اب اِس فصل کے زہریلے کاٹنے حلق میں پھنس رہے ہیں، معاشرتی اور اخلاقی زوال کی بادِ سموم کے تھپیڑے ہمارے چہرے زخمی کر رہے ہیں تو سب عالمِ حیرت و خوف میں ہیں۔ ہماری شاہرائوں پر راہ چلتی عورتوں کی عصمتیں محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں جنس زدہ ہیجانی درندوں کے ہاتھوں روز قتل ہو رہی ہیں، وہ جو مہذب کہلاتے ہیں، جہاں کبھی نرمگی ونفاست اوڑھنا بچھونا ہوتا تھا اور عورت کا یکساں ساتھ اور رقص و موسیقی کی خواب آور زندگی کا خواب گیں ماحول تھا،آج انکی نسلیں بھی عورتوں کو درندوں کی طرح قتل کررہی ہیں، اذیتیں دے کر ماررہی ہیں، جنون میں پاگل ہوئی جا رہی ہیں۔ کیا ایسا آج سے صرف پچاس سال پہلے تھا؟ دل پر ہاتھ رکھ کر بولو، جس خدا کو مانتے ہو اُس کو حاضر و ناظر جان کر بتائو، جس تہذیب و تمدن سے محبت کرتے ہو اسی کے پیمانے میں تول کر بتائو،کہ کیا ہمارا معاشرہ اس قدر جنونی، دہشت زدہ، جنسی طور پر ہیجان انگیز اور خوفناک حد تک ظالم تھا؟ اگر آپ سچے ہیں تو میرے اس سوال کا جواب صرف اور صرف ’’نہیں‘‘ میں آئے گا۔ ہم نے کونسی فصل بوئی ہے جس کے کانٹے اب آکر نکلے ہیں۔ یہ تو وہی فصل ہے کہ جو ہم سے تقریباً ایک سو سال پہلے مغربی دُنیا نے بھی بوئی تھی اور آج اس معاشرے میں جرم و گناہ اور تشدد و بربریت کی جو اقسام پائی جاتی ہیں، ہمارے معاشرے میں بھی ان کا ظہور ہو چکا ہے۔یہ فصل کونسی ہے؟ کوئی تو بتائے، کھل کر نام لے۔ لیکن اس سے پہلے کہ فصل کی بات ہو، جس سرزمین پر یہ بوئی جاتی ہے، جس مٹی میں پروان چڑھتی ہے اس کا نام ہے…’’ مخلوط معاشرہ‘‘ ۔ منبرومحراب چُپ ہیں، کوئی نہیں بولتا کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جس معاشرے کو ایک آئیڈیل معاشرہ قرار دیا، وہ ہرگز ہرگز مخلوط نہیں تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں گذشتہ پچاس سالوں میں ہم نے جس قدر محنت ، اپنے معاشرے کو مخلوط بنانے میں صرف کی ہے کسی اور طرف اس کا ایک فیصد بھی نہیں لگایا۔ آج اس ملک کا ہر ادارہ، چوک چوراہا، گھر دربار، ہوٹل بازار، ہسپتال، سکول یہاں تک کہ وہ ادارے جو کبھی کبھار حالتِ جنگ میں کام آتے ہیں، وہ سب بھی مخلوط ہو چکے ہیں۔ ہماری بے حسی اور مغرب پرستی کا عالم یہ ہے کہ ہم نے اپنی عسکری صفوں کو اس وقت مخلوط کیا، جب پوری دُنیا میں امریکی اور نیٹو افواج کے اپنی ہم پیشہ خواتین کے ساتھ جنسی تشدد سے لے کر جنسی اختلاط کے لاتعداد واقعات سامنے آ رہے تھے اور دُنیا بھر کا میڈیا انہیں دوستانہ حملہ (Friendly Fire) کہہ کر ہنسی میں اُڑا رہا تھا۔ ہمارے معاشرے پر ایسا ظلم تو گورے نے بھی نہیں کیا تھا جو اس برصغیر پر ڈیڑھ سو سال تک حکمران رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ اس دَور میں خود برطانیہ کا معاشرہ بھی قدیم روایت و اخلاقیات کا پابند تھا۔وہاں عورتوں کو تعلیم تو دی جاتی تھی، لیکن ان کے لیے سکول اور ادارے مختلف ہوتے تھے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں یورپ کی یونیورسٹیوں میں عورتوں کو سکولوں میں داخلے کی اجازت تو ملی، لیکن کلاسیں پھر بھی علیحدہ علیحدہ ہوا کرتی تھیں۔ یورپ کی دیکھا دیکھی برطانیہ میں آکسفورڈ، کیمبرج اور لندن سکول آف اکنامکس نے بھی 1920ء کے آس پاس یونیورسٹی کی سطح پر خواتین کیلئے اپنے دروازے کھولے، لیکن ان عورتوں کو مخصوص کالجوں میں پڑھایا جاتا تھا۔ اس کی مثال آکسفورڈ کا لیڈی مارگریٹ ہال ہے، جسے 1979ء یعنی صرف تقریباً چالیس سال قبل مخلوط کیا گیا۔ اسی طرح آکسفورڈ ہی کے عورتوں کیلئے ایک اور مخصوص کالج سینٹ ہوگ (St. Huge) کو 1986ء میں مخلوط کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ گورے نے برصغیر پاک و ہند میں بھی یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کو مخلوط کیا، لیکن نیچے تمام تعلیمی ادارے لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے علیحدہ ہی رہے۔ ہم نے ایک عالمی بھیڑ چال پر عمل کیا، جس کے نتیجے میںآج ہم نے یہ ’’کامیابی‘‘ حاصل کر لی ہے کہ وہ ملک پاکستان جس میں آج سے چالیس سال قبل کوئی مخلوط تعلیمی ادارہ ڈھونڈنا مشکل تھا، وہاں اب صرف خواتین کی تعلیم کیلئے علیحدہ معیاری ادارے ڈھونڈنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہو چکا ہے۔ صرف وہی چند ایک پرانے سرکاری ادارے ہیں جو سالوںسے چلتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی منصوبہ بندی میں اس کے تمام عوامل کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کا سب سے اہم ترین خاصہ اس کی پدرسری خاندانی زندگی ہے۔ ’’عورت مارچ‘‘ میں اس پدر سری کو گالی دی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ننانوے فیصد گھرانوں میں آج بھی کمائی کا بنیادی ذمہ دار (Sole Bread Winner) مرد ہی ہے۔ اس عالم میں ایک مرد کی تعلیم اور ہنر کیلئے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کئے جانے چاہئے تھے، تاکہ زیادہ سے زیادہ خاندانوں کا سربراہ معاشی طور پر مضبوط ہو اور زیادہ سے زیادہ خاندان بہتر زندگی گزار سکیں۔ لیکن برابری، حقوقِ نسواں کے نعروں اور میرٹ کی بالادستی کو ملا کر ایک ایسی مکس چارٹ تیار ہوئی، جس کے تحت ان مخلوط تعلیمی اداروں میں یکساں میرٹ لسٹیں تیار ہونا شروع ہوئیں اور آج وہ مرد جس نے اس معاشرے کے خاندانی نظام کی معاشی باگ ڈور سنبھالنا تھی، اس کیلئے معیشت کے دروازے بند ہونے لگے، ان کی تعداد گھٹتے گھٹتے اتنی رہ گئی، اب میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے شعبوں میں بھی لڑکے صرف 25 فیصد کے قریب ہیں۔ اختلاط، معاشی خودمختاری اور خواتین کی بندھنوں سے گلو خلاصی (Emancipation) نے مل کر ایک ایسا پاکستانی معاشرہ تخلیق کردیا، جس کا آئیڈیل لائف سٹائل صرف اور صرف ایک ہی ہے یعنی ’’مغرب کا سیکولر لبرل‘‘ لائف سٹائل جو دو اصولوں کے گرد گھومتا ہے… ذہنی خوشی اور ذاتی کامیابی۔ آپ وقتی خوشی کیلئے اخلاق، اقدار، اولاد، بیوی، والدین سب کچھ قربان کر سکتے ہیں اور ذاتی کامیابی کی راہ میں اگر بھائی یا باپ بھی آ جائے تو اسے روندتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔ جو خاردار درخت اور کانٹے دار جھاڑیاں ہمارے ہاں آج سر اُٹھا رہی ہیں، امریکہ اور یورپ ان میں گذشتہ پچاس سال سے بری طرح اُلجھے ہوئے ہیں۔ان معاشروں میں آج قتل ہونے والی خواتین میں سے چالیس فیصد وہ ہیں جنہیں اُن کے پہلے والے خاوند یا بوائے فرینڈ اذیتیں دے کر قتل کرتے ہیں۔ ان خاوندوں کے علاوہ وہ مرد اور عورتیں جنہوں نے درجنوں قتل کئے ہیں، جنہیں ’’سیریل کِلر‘‘ کہا جاتا ہے، ان کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔ ایسے جنونی کہ کوئی مقتولہ کے خون کے فوارے سے نہاتا ہے تو کوئی اُسے ریفریجریٹر میں رکھ کر کھاتا ہے۔ اخلاقیات کی آزادی نے مخلوط معاشرے کیساتھ مل کر وہاں ایک ایسی خوفناک صورتحال پیدا کر دی ہے کہ ایک عورت دفتروں، بازاروں، سکولوں، کارخانوں، فوجی یونٹوں، یہاں تک کہ لفٹ اور باتھ روم میں بھی محفوظ نہیں۔ اس مغربی معاشرے کے مقابلے میں گذشتہ صدی میں ستاون اسلامی ممالک کا مسلم معاشرہ بھی ساتھ ہی پروان چڑھ رہا تھا۔ اس معاشرے نے اتنے عرصے میں خود کو مخلوط ہونے سے بچائے رکھا اور آج ان ستاون اسلامی ممالک کی صورتحال کاموازنہ مغرب کے کسی بھی ملک سے کرکے دیکھ لیں۔صرف ’’سیریل کِلر‘‘ کی ہی لسٹ اٹھا لیں، ہزاروں لوگوں کی اس فہرست میںمسلمان ممالک میں ان کی تعداد ایک درجن سے زیادہ نہیں بنتی۔ (جاری ہے)