قائداعظم سے عمران خان تک … ایک پوری تاریخ ہے کشمیر کی۔ درمیان میں 1971ء اور ڈھاکہ بھی آتے ہیں۔ اگر دو رقیب ملکوں کے درمیان سکور کارڈ تیار کیا جائے تو جمع تفریق میں کیا جواب آئے گاـ؟ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیونکر بن گیا؟ جب پاکستان بنا تو ہم پر کتنا قرضہ تھا۔ آج ہمارا ہر نومولود پیدا ہونے سے پہلے ہی مقروض ہوتا ہے۔ ہم کشمیر کا قرض کیا چکاتے، ہم تو اپنا قبضہ بھی قائم نہ رکھ سکے اور بنگالی بھائی ناراض ہوکر الگ ہوگئے۔ کیوں؟ کیسے؟ ہمیں رک کر دوبارہ میزانیہ بنانا ہوگا۔ ہم نے کیا کھویا… ہم نے کیا پایا؟ چینی ہمارے بھائی ہیں مگر عالمی سیاست میں اور خطے میں کوئی بھی اپنی حدد اور قیود سے باہر ایکٹ نہیں کرتا۔ یہی اصول و ضوابط ہیں گلوبل تعلقات کے۔ ہماری آبادی کتنی ہے؟ بائیس کروڑ پلس سے کچھ زیادہ۔ ان کی آبادی کتنی ہے … ایک ارب چالیس کروڑ سے بھی زیادہ۔ ہم نے جب الگ وطن حاصل کیا تو ہمیں یک جا رکھنے والا فیکٹر کیا تھا؟ کس بنیاد پر نظریہ پاکستان پیش کیا؟ مشترک دین اسلام کی بنا پر۔ مگر جب دین اپلائی نہ کیا تو کیا ہوا؟ بھارت مختلف قومیتوں کا بہت بڑا ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’نہرو اینڈ کو‘‘ نے اس کے آئین کو سیکولر بنایا۔ برہمن ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی یہاں تک کہ یہودی بھی یہ نہ کہے کہ جناب میرا دین نافذ کریں۔ اب وہی بھارت اتنا بڑا ہے کہ اس کی مختلف قومیتیں اپنی جائز شکایات کے دبائو سے مرکز سے گریز کی راہ اپنا رہی ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کے باطن میں اور مشرقی پنجاب کے سکھوں کے اندر جو وحشت پنپ رہی ہے اسے آر ایس ایس اور بی جے پی کیونکر اور کس طرح ہوا دے رہے ہیں؟ کسی شاعر کی زبان میں … راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے … ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے۔ تاریخ کا جبر ہے کہ مکافاتِ عمل اسی بھارت کو جسے نہرو اور ہمنوا سیکولرازم کے ذریعے پارہ پارہ ہونے سے بچانا چاہتے تھے، اسی سیکولرازم کی گوند کو مودی اور اجیت دوول جیسے جڑ سے اکھیڑنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان کی قومیتوں کا مطالعہ کریں، ان کے فٹ پاتھ پر رہنے والوں کا انٹرویو کریں۔ امیتابھ بچن اور شاہ رخ کی فلموں کے ہندوستان سے بالکل مختلف بھارت آپ کے سامنے ہوگا۔ پژمردہ، کچلا ہوا، ڈپریس اور مایوس فٹ پاتھیا ہندوستان۔ کانگریس اور بی جے پی اور انتہا پسند آر ایس ایس تو خود کشی کر ہی رہی ہیں آپ ذرا اُن کے ہاں سیاست اور جرم کا تال میل دیکھیں تو آپ خوشگوار حیرانی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ممبئی سے دہلی تک اور دہلی سے کلکتہ تک، کمال کی غربت ہے۔ اس قدر افلاس کے آپ کسی کو ٹپ دے دیں۔ ذرا زیادہ تو اس کے دھوپ کی تپش سے درماندہ چہرے میں سے چمکتی مسکرائی آنکھیں اور بتیسی آپ کا سواگت کریں گے۔ مگر بھارت عالمی برادری کے پلیٹ فارم پر بالکل الٹ پینٹ کرتا ہے۔ شائننگ انڈیا… میڈ اِن انڈیا … لبرل انڈیا … وہاں کی مڈل کلاس اچھے لٹریسی ریٹ کی وجہ سے راکھ کے ڈھیر سے اٹھتی ہے اور تمام تر باطنی کمزوریوں اور کمینگیوں کو عبور کرتی ہوئی انگریزی بولتی مڈل کلاس کہلاتی ہے۔ وہاں کا کارپوریٹ ورلڈ بھی ایسا ہی ہے۔ تیسری دنیا کے غلیظ گٹروں کی طرح لتھڑا ہوا۔ ایلن، نیویارک کے ایک آسودہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے مطابق وہ شائننگ انڈیا دیکھنے بھارت گیا۔ کلکتہ میں اس نے ایک منظر دیکھا۔ اسے ہارٹ اٹیک ہوگیا۔ اسے ائربس پر طبی سہولتوں کے ساتھ نیویارک کے ایک ہسپتال بمشکل پہنچادیا گیا۔ اس نے کیا دیکھا؟ اس نے کلکتہ کی ایک روڈ پر دیکھا کہ ایک کتا … ایک چھوٹے سے انسانی بچے کو فٹ پاتھ سے دانتوں سے اٹھا کر کہیں لے جارہا تھا۔ بھارت کشمیر میں اتنا زور کیوں لگا رہا ہے؟ اس نے کشمیر کو انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جیل کیوں بنادیا ہے؟ وہ کشمیریوں پر اتنے ظلم کیوں روا رکھے ہوئے ہے؟ برہان وانی جیسے ہزاروں نوجوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ بے شمار بہنوں اور بیٹیوں کے سہاگ اجڑ گئے۔ بھارتی فوج اس وقت جو کچھ کشمیر میں کر رہی ہے… اس کا ایک فیصد بھی باہر نہیں آیا۔ جو سوشل میڈیا نے دیکھا وہ بہت کم ہے۔ بھارت جارح ہے، بھارت منافق ہے، وہ بدعہد ہے، وہ مکار ہے۔ ان تمام حقیقتوں کی صداقت سے کوئی بھی ہوش مند انسان خواہ وہ مسلمان نہ بھی ہو، پاکستانی نہ بھی ہو، انکار کبھی نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اندر اس سب کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے۔ محبوبہ مفتی اور شیخ عبداللہ کی موجودہ نسل اس سب پر پشیمان بھی ہے اور حیران بھی کہ کاش اُن کے بڑے پنڈت نہرو پر اعتبار نہ کرتے۔ فریڈم ایٹ مڈ نائٹ بہت خوبصورت کتاب ہے۔ ہندوستان کی تقسیم پر اتنی خوبصورت کتاب شاید ہی پڑھی ہو۔ لارڈ مائونٹ بیٹن سے پنڈت نہرو تک اور قائداعظم سے ریڈ کلف تک ناانصافیوں اور بے ایمانیوں کی ایک دلچسپ حکایت ہے۔ اس میں کشمیر بھی آتا ہے۔ کشمیر کہانی اور انگریز چیف آف دی آرمی سٹاف … سرحد کے دونوں جانب اور پھر وہی یواین او کی قراردادیں … مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر۔ ہم ہر سال کشمیر ڈے مناتے ہیں۔ دنیا بھر میں سفارت خانوں کے باہر احتجاج ہوتا ہے۔ بینرز، پوسٹرز، نعرے، میڈیا اور سوشل میڈیا مگر باٹم لائن کیا ہے؟ اس خطے کی قدیم تاریخ کیا بتاتی ہے؟ قانونی حیثیت کچھ اور ہوتی ہے اورعملی قبضہ کچھ اور۔ عالمی تعلقات کو چھوڑیں… بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش کی مقامی سوشیالوجی کو دیکھ لیں۔ جو قابض ہے وہ مالک ہے۔ عام آدمی، عام عدالت میں جاتا ہے، کیا پاتا ہے؟ عالمی مظلوم یو این او کا دروازہ بار بار کھٹکھٹاتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی سری نگر تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے پہنچ ہی جائیں۔ مگر کب اور کیونکر؟ ہمارے سوچنے والے طبقات کو ایک بار رُک کر اسے دوبارہ سوچنا چاہیے! ہم نے کیا کھویا…